
تحریر :سدرہ رفاقت
غزہ (فلسطین)اس وقت دنیا کے ان پسماندہ_ ترین خطوں میں سے ایک ہے جہاں مخلوقِ خدا پانی کے ایک گھونٹ سے لےکر روٹی کے ایک نوالے تک کے لیے دستِ دراز ہے۔معصوم و بے گناہ فلسطینی صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر آئے روز اسرائیلی بمباری ،ظلم اور کرفیو کی زد میں آ کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ایسے میں یہ سوال کرنا اور سوچنا بالکل بھی غلط نہ ہو گا کہ کیا اسرائیل فلسطین جنگ بھی کوئی کربلا کی طرح کا امتحان ہے ؟یا پھر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ خدائے لم یزل مسلمانوں کو ایک بار پھر دینِ اسلام کے لیے یکجا ہونے کی دعوت دے رہا ہے۔لیکن اس صورتحال میں تمام عالمی اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب کی سنگین چُپ ،عالمی میڈیا کی خاموشی اور اقوام متحدہ کی منافقت اس بات کا واضح ثبوت دیتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام صرف اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہی معرکہِ حق کی لڑائی لڑنے کیوں گئے ؟؟کوفہ والوں نے ڈیڈھ سو عرضیوں کے بعد بھی امام عالی مقام کا ساتھ دینے سے کیوں منہ موڑ لیا ؟
30000 کی فوج کے آگے تن تنہا وہ عظیم سپہ سالار نواسہِ رسول جگر گوشہِ بتول اپنے باغ کے 72 پھول اور کلیاں ساتھ لیے کیوں آواز حق بلند کرتے ہیں ،وہ محض اس لیے نہیں تھا کہ اللہ پاک اپنا دین بچانے کی قوت نہیں رکھتے نعوز باللہ بلکہ اس میں سچ سامنے ہوتے ہوئے بھی باطل کی پیروی کرنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا سبق تھا
"کہ جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھا کرتے "
اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہر دور میں عالم اسلام اور مسلمانوں کو کسی نہ کسی یزید کا سامنا رہا ہے
ہر دور کے اپنے کوفی،ہر دور کے اپنے یزید
ہر دور کا اپنا ظلم ،ہر دور کا اپنا شہید
اسلامی تاریخی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب بھی روح زمین پر ظلم بڑھا اللہ تعالیٰ نے انھی لوگوں میں سے ہی اپنے نبی اور برگزیدہ بندے بھیجے جنھوں نے حسب استطاعت اُس ظلم کا مقابلہ کیا،ان کے ساتھ صرف وہی لوگ کھڑے تھے جو حق شناس،بے باک اور خدا پر کامل یقین رکھنے والے تھے آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی انھی ادوار کے مظالم کی ایک کڑی شمار کی جاتی ہے ۔بحیثیت مسلمان اور بحیثیت مخلوق ہر زی روح کو غزہ میں دہکنے والی اس آگ کو بجھانے کے لیے بصورتِ چڑیا پانی پہنچانے کی ضرورت ہے اس خیال کے قطع نظر کہ ہم اسکو بجھانے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں ،صرف اس امید اور یقین کے ساتھ کہ ہماری نیت ،کوشش اور طرف داری اللہ کے ہاں ہمیشہ محفوظ رہے گی ۔دنیا ایک دفعہ پھر کشتیِ نوح کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے ایک طرف حق کی کشتی میں سوار ہونے اور اپنی منزل کو پا لینے والے اہلِ غزہ اور دوسری طرف حق کو جھٹلانے اور خاموش رہنے والے اسلامی ممالک۔
باخدا اسرائیل فلسطین جنگ ،دورِفرعون کی بھی خوب عکاسی کر رہی ہے ،دور فرعون میں ایک طرف وقت کا طاقتور،ظالم و جابر حکمران جو اپنے اقتدار کے خاتمے کے خیال سے اتنا خوفزدہ تھا کہ ہر نومولود بچے کو زندہ دفنا دینے کا حکم صادر کر رکھا تھا اور دوسری طرف وہ خدائے لم یزل جس نے فرعون کے گھر میں ہی موسیٰ کو پروان چڑھایا اور پھر اسی بچے کے ہاتھوں فرعون کے سامنے کلمہ حق بلند کروایا ۔فرعون بادشاہ وقت ہونے کی حیثیت سے لاکھ طاقت،سیاست اور مالی وسائل ہونے کے باوجود حق کو دبانے میں ناکام رہا اور خدا کے فضل سے نیل میں نیست و نابود ہوا اور آخر کار بنی اسرائیل کو نجات ملی ۔
بالکل اسی طرح آج کا فرعون (اسرائیل ) بھی اپنی طاقت ،سیاست اور وسائل کے نشے میں مغرور ہے ۔وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ ہر چیز پہ اسی کی حاکمیت ہے ،غزہ کی بے گناہ ،معصوم جانیں بے قیمت ہیں مگر خدا کا فیصلہ اٹل ہے ،ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور آتا ہے اور ان شاءاللہ ایک دن ضرور آئیگا ۔
بحیثیت مسلمان اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ہر کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے ،عالمی دنیا ،عالم اسلام ،اقوام متحدہ ،عالمی میڈیا ،ہر اکائی کو غیر جانبدار ہو کر صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی کیونکہ آواز اٹھانے کے لیے لاش کا بے گناہ ہونا ہی کافی ہوتا ہے ،مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے مزہب ،زبان یا قومیت کی شرط لگانے سے پہلے ہمیں یہ زہن نشین کرنا ہو گا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی "ایک” اونٹنی کے قاتل قوم ثمود کے چند لوگ تھے لیکن اس گناہ کے بدلے اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو ہی صفحہِ ہستی سے مٹا دیا ۔
تو اگر آج ہم ان لاکھوں معصوموں کے قتل پر خاموش رہیں تو کونسا عزر ہمیں بچا پائیگا ؟؟کیا وہ معصوم بے گناہ اونٹنی سے بھی کم اہم ہیں جو ہر رات ماں کی گود میں شھید کیے جاتے ہیں ؟بس بہت ہو چکی مزمت ،اب وقت آ گیا ہے کہ عالم اسلام اپنے خواب غفلت سے بیدار ہو اور اللہ کے احکام کو بروئے کار لاتے ہوئے پیام حق بلند کرنے کے لیے ظلم کے خلاف صف آرا ہو۔