اقبال کا خواب، ہماری حقیقت
تحریر: محمد محسن اقبال
جب گھر کے کسی فرد کو ہلکا بخار یا نزلہ زکام ہو جاتا ہے تو ہمارا پہلا ردِعمل ہمیشہ متوازن اور سمجھدارانہ ہوتا ہے۔ ہم وہی آزمودہ گھریلو علاج اپناتے ہیں جو ہمیں اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملے ہیں — آرام، پرہیز، اور وہ چھوٹے نسخے جو شفقت سے بھرے گھروں میں نسل در نسل چلتے آئے ہیں۔ جب یہ تدابیر ناکام رہتی ہیں تو ہم گھر میں موجود دواؤں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اگر بیماری پھر بھی قابو میں نہ آئے، تو ہم ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں، ٹیسٹ کراتے ہیں، اور جب زندگی کا تقاضا ہو، تو جراحی (سرجری) کے مرحلے کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہ تسلسل — احتیاط، مشاورت اور آخر میں فیصلہ کن اقدام — صرف علاج کا طریقہ نہیں بلکہ دانش اور اخلاق کی ایک ترتیب ہے۔ یہی اصول ریاستوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جب ان کی سرحدی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔
پاکستان کی افغانستان کے ساتھ ہمسائیگی کا رشتہ صبر، رواداری اور خیرسگالی پر مبنی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو خوش دلی سے پناہ دی۔ اس ہجرت کے عروج پر تقریباً تیس لاکھ افغان پاکستان میں مقیم تھے۔ یہ لوگ کیمپوں اور شہروں میں آباد ہوئے، جن کی دیکھ بھال پاکستانی عوام کی انسان دوستی اور عالمی امداد کے سہارے ہوئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے پاکستان کی تاریخ میں انسانیت اور قربانی کی ایک روشن مثال قائم کی۔
مگر مدد،خیرات اور قربانی کا یہ مطلب نہیں کہ نقصان پہنچانے والے اعمال پر لا متناہی برداشت دکھائی جائے۔ پاکستان نے برسوں سے مختلف افغان حکومتوں — اور حالیہ برسوں میں کابل کی موجودہ قیادت — سے بارہا اپیل کی ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دی جائے۔ یہ اپیلیں کبھی خاموش سفارتی ذرائع سے، کبھی کھلے عام بیانات کی صورت میں، اور کبھی بارڈر پر ہونے والے حملوں کے بعد سخت احتجاج کے ذریعے کی گئیں۔ پاکستان کے اعلیٰ سول و عسکری حکام نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ سرحد پار سے ہونے والے حملے اور وہاں موجود محفوظ پناہ گاہیں خطے کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
ریاستوں کے لیے دانشمندی کا پہلا تقاضا بات چیت اور صبر آزما سفارت کاری ہے۔ اگر مکالمہ تعاون میں بدل جائے تو امن قائم ہوتا ہے اور دونوں قوموں کے درمیان مذہب، ثقافت، تجارت اور خاندانی رشتوں کے بندھن مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ لیکن جب بار بار کی اپیلیں رائیگاں جائیں، اور تشدد کرنے والے عناصر سرحدی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے رہیں، تو پھر ایک خودمختار ریاست پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرے۔ ایسا اقدام جارحیت نہیں بلکہ ذمہ داری کا مظہر ہوتا ہے — ایسا اقدام جو قانون کے دائرے میں ہو، ضرورت کے مطابق ہو، اور جس میں بے گناہ جانوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جائے۔ پاکستان کی حالیہ پالیسیوں اور کارروائیوں میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے جائیں اور جنگجوؤں کو عام شہریوں سے الگ پہچانا جائے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ علاقائی رقابتیں اور پراکسی پالیسیوں نے کئی بار مقامی تنازعات کو عالمی مفادات کا ذریعہ بنا دیا۔ بیرونی قوتوں نے افغانستان کی کمزوریوں کو اپنے جغرافیائی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس کے اثرات پاکستان سمیت پورے خطے میں محسوس کیے گئے۔ مئی 2025 کا واقعہ — جب بھارت اور پاکستان کے درمیان مختصر مگر شدید تصادم ہوا — اس بات کی یاد دہانی ہے کہ معمولی چنگاری بھی بڑے شعلے بھڑکا سکتی ہے۔ طاقت اگر انصاف کے بغیر ہو تو انتقام کو جنم دیتی ہے، اور احتیاط اگر عزم سے خالی ہو تو کمزوری میں بدل جاتی ہے۔ مئی کے چار دنوں نے یہ دکھا دیا کہ کس طرح خطے میں تنازع لمحوں میں پھیل سکتا ہے، اور کیوں مضبوط دفاع کے ساتھ کھلی سفارت کاری بھی ضروری ہے۔
عملی حقیقت پسندی اخلاقی قیادت کی ضد نہیں۔ پاکستان کی بارہا کی گئی اپیلیں — چاہے وہ علاقائی طاقتوں سے ہوں، اسلامی برادر ممالک سے یا عالمی اداروں سے — اس بات کی متقاضی ہیں کہ مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہ کیے جائیں۔ اگر ذمہ دار ہمسائے اور ادارے اپنا کردار ادا کریں تو پائیدار امن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن جب وہ خاموش رہیں یا ہچکچاہٹ دکھائیں تو امن کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور ایک ریاست کے پاس اپنے عوام کے تحفظ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ مقصد انتقامی کارروائی نہیں بلکہ ایسے حالات کی بحالی ہے جہاں تجارت، سفر اور خاندانی روابط بلا خوف جاری رہ سکیں۔
حب الوطنی کا تقاضا نہ تو اندھی جارحیت ہے اور نہ ہی سادہ لوح نرمی۔ یہ دراصل حق و باطل کی پہچان، معصوموں کے دفاع کا حوصلہ، اور پائیدار امن کی جستجو کا نام ہے۔ جیسے سرجن کا نشتر آخری علاج ہوتا ہے، ویسے ہی ریاست کا طاقت استعمال کرنا آخری قدم ہونا چاہیے — مگر کوئی اسے کمزوری نہ سمجھے۔ جس قوم نے مشکل گھڑی میں اپنے دروازے کھولے، وہ آج صرف یہ چاہتی ہے کہ اس کے احسان کا بدلہ دشمنی نہیں بلکہ باہمی امن سے دیا جائے۔ اگر افغانستان کے حکمران اور عوام واقعی برادری اور دوستی کے رشتے کی قدر کرتے ہیں تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوستی کی زمین دشمنی کا میدان نہ بنے۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت تدبر اور قیادت کی ہے — ایسی قیادت جو اسلامی دنیا اور خطے کے رہنماؤں کو مکالمے کی میز پر بلائے؛ ایسے سفارتکاروں کی جو ہر دروازہ کھلا رکھیں؛ ایسے سیکیورٹی اداروں کی جو قانون کے مطابق اور انصاف کے ساتھ عمل کریں؛ اور ایسے شہریوں کی جو متحد ہو کر اپنے وطن کی حفاظت کے لیے کھڑے رہیں۔ اگر بد نیت عناصر نصیحت اور مفاہمت کے باوجود باز نہ آئیں، تو پھر پاکستان اپنے عوام کے تحفظ کے لیے وہی کرے گا جو لازم ہو — مگر ہمیشہ اس نیت کے ساتھ کہ یہ فیصلہ امن، عزت، اور دیرپا استحکام کی طرف واپسی کا راستہ بنے۔
