
خواتین کی صحت سے جڑا ایک سنجیدہ اور تشویش ناک انکشاف حالیہ دنوں عالمی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایک ایسی مانع حمل دوا جس کا مقصد خواتین کو سہولت دینا تھا، اب ان کی صحت کےلیے ایک ممکنہ خطرے کے طور پر سامنے آرہی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق ’’ڈیپو پروویرا‘‘ (Depo-Provera) نامی یہ دوا، جسے دنیا بھر میں لاکھوں خواتین استعمال کرچکی ہیں، دماغی رسولی یعنی مینی نیوما سے منسلک کی جارہی ہے۔
یہ انکشاف فرانس کی نیشنل ایجنسی فار میڈیسنز اینڈ ہیلتھ پروڈکٹس سیفٹی کی جانب سے 2023 میں شائع ہونے والی تحقیق کے ذریعے سامنے آیا، جس میں بتایا گیا کہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ تک یہ دوا استعمال کرنے والی خواتین میں مینی نیوما کا خطرہ پانچ گنا زیادہ پایا گیا۔ اگرچہ یہ رسولیاں بظاہر غیرسرطانی ہوتی ہیں، مگر جب یہ بڑھنے لگیں تو دماغ اور اعصابی نظام پر دباؤ ڈال کر شدید طبی پیچیدگیاں پیدا کرسکتی ہیں۔
برطانیہ، امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس دوا کے استعمال کے بعد متعدد خواتین نے دماغی دباؤ، دورے (seizures) اور اعصابی مسائل کی شکایت کی ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف دوا ساز کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے بلکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے تحفظات اور خدشات کا کھل کر اظہار بھی کر رہی ہے۔
برطانیہ میں سیکڑوں خواتین ’’ڈیپو پروویرا‘‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس انجیکشن میں شامل فعال جزو میڈروکسی پروجیسٹیرون ایسیٹیٹ ہے، جو پاکستان میں بھی مختلف تجارتی ناموں سے دستیاب ہے، جیسے ’’ڈیپو پروویرا سہیلی‘‘، ’’فیمیلا‘‘، ’’میڈروکسی ڈیپو‘‘ اور ’’میگسٹرون‘‘۔ یہ ادویات مارکیٹ میں طویل عرصے سے موجود ہیں اور ہر ماہ صرف انگلینڈ میں اس دوا کے 10,000 سے زائد نسخے جاری کیے جاتے ہیں۔
متاثرہ خواتین میں سے ایک، 18 سالہ جیسیکا بلیک کی کہانی نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ جیسیکا کو جنوری 2024 میں یہ دوا دی گئی اور اس کے بعد سے وہ بیس سے زائد دوروں کا شکار ہوچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے کوئی بیماری نہیں تھی، اس لیے انہیں یقین ہے کہ ان کی حالت کی بنیادی وجہ یہی دوا ہے۔
ڈاکٹر این ہینڈرسن، جو ایک سابق کنسلٹنٹ گائناکولوجسٹ ہیں، نے بھی اس دوا کے ممکنہ خطرات کی تصدیق کی۔ ان کے مطابق صرف ماہواری کو کنٹرول کرنے کےلیے اس طرح کی دوا تجویز کرنا ایک خطرناک طبی غفلت کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو اپنی صحت کے بارے میں باشعور ہونا چاہیے اور خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ’’کیا یہ دوا میرے لیے واقعی موزوں ہے؟‘‘
امریکا میں تقریباً 400 خواتین نے دوا ساز کمپنی فائزر اور دیگر اداروں کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، جن کا الزام ہے کہ ان کمپنیوں نے دوا سے جُڑے خطرات کو جاننے کے باوجود وارننگ فراہم نہیں کی۔ برطانیہ میں بھی قانونی ادارے سیکڑوں خواتین کے مشورے سننے اور مقدمات دائر کرنے میں مصروف ہیں۔
اس انکشاف کے بعد برطانیہ کی میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری اتھارٹی نے فائزر کو ہدایت دی ہے کہ وہ دوا کے معلوماتی کتابچے میں ’’دماغی رسولی‘‘ کے خطرے کے بارے میں واضح وارننگ شامل کرے۔ کمپنی نے نیشنل ہیلتھ سروس کے ڈاکٹروں کو بھی خط لکھ کر متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی مریضہ میں میننگیوما کی تشخیص ہوجائے تو دوا کا استعمال فوراً بند کردیا جائے۔
یہ معاملہ صرف ایک دوا کا نہیں بلکہ ایک وسیع تر سوال کا ہے: خواتین کو اُن ادویات کے بارے میں کتنی معلومات دی جاتی ہیں جو ان کے جسم میں براہ راست تبدیلیاں لاتی ہیں؟ اس واقعے نے ثابت کر دیا ہے کہ صحت سے متعلق فیصلے اعتماد سے نہیں، معلومات سے کرنے چاہئیں۔