
تحریر ۔شہربانو
جدید معاشرے میں اخلاقی اقدار کا زوال ایک نہایت تشویشناک مسئلہ بن چکا ہے۔ جدید معاشرے کا تانا بانا ایک سنگین خطرے سے دوچار ہے: اخلاقی اقدار کی گراوٹ۔ جیسے جیسے ہم ترقی، سہولت اور ذاتی مفاد کو اصولوں اور اخلاقیات پر ترجیح دیتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے ہم اس بنیاد کو کھو رہے ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ یہ رجحان دور رس نتائج اد، برادریوں اور مجموعی معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔
اس زوال کی ایک بڑی وجہ انفرادیت کو اجتماعیت پر فوقیت دینا ہے۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ذاتی کامیابی کو اولین ترجیح دیں، چاہے اس کے لیے دوسروں کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ اس سوچ نے سماجی ہم آہنگی اور برادری کے احساس کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے لوگ ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔
ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا اثر بھی اخلاقی اقدار کے زوال میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انٹرنیٹ کی گمنامی لوگوں کو ایسے رویوں کی اجازت دیتی ہے جو وہ بالمشافہ اختیار نہ کرتے، جیسے کہ سائبر بُلیئنگ، ہراسانی، اور غلط معلومات کا پھیلاؤ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سنسنی اور غصے کو فروغ دیتے ہیں، جو مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
اس کے علاوہ، دولت اور طاقت کا حصول بہت سوں کے لیے سب کچھ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ سے بدعنوانی، استحصال، اور دوسروں کی فلاح و بہبود کی عدم پرواہی عام ہو گئی ہے۔ قلیل مدتی فوائد اور منافع پر توجہ نے ماحولیاتی تباہی، سماجی ناانصافی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے۔
اس رجحان کے نتائج تشویشناک ہیں۔ اداروں پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے، اور سماجی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمدردی اور رحم دلی کی کمی نے ایک ایسے کلچر کو جنم دیا ہے جس میں لوگ دوسروں کی بجائے صرف اپنے مفادات کی فکر کرتے ہیں۔
اخلاقی اقدار کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ہمیں ہمدردی، رحم، اور مہربانی کو ترجیح دینی ہوگی۔ ہمیں ہر فرد کی قدر اور عزت کو تسلیم کرنا ہوگا اور ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اس کے لیے ہماری اقدار اور ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے — انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف، اور قلیل مدتی فوائد سے طویل مدتی بہتری کی طرف۔
ایسا کر کے ہم ایک ایسی دنیا تشکیل دے سکتے ہیں جہاں اخلاقیات اور اصول ذاتی مفاد سے زیادہ اہم ہوں۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر شخص کو عزت و وقار سے دیکھا جائے، اور جہاں سب کی بھلائی کو مقدم سمجھا جائے۔ اب عمل کا وقت آ گیا ہے — ہمارے معاشرے کا مستقبل اسی پر منحصر ہے