
تحریر: فرحان خلیل
khalilfarhan87@gmail.com
پشاور جو خیبرپختونخوا کا دل اور صوبائی دارالحکومت ہے آج اپنی سڑکوں، ٹریفک، گرد و غبار اور بے ہنگم ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے بدنام ہوتا جارہا ہے۔ ماضی میں خوبصورتی، تاریخ اور تہذیب کا گہوارہ کہلانے والا یہ شہر آج کھدائی، دھول، دھوئیں، گڑھوں، ٹوٹی سڑکوں اور ماحولیاتی تباہی کی تصویر بن چکا ہے۔ ہر جانب ترقیاتی کام کے نام پر جاری منصوبے عوام کے لیے ریلیف کے بجائے عذاب بن چکے ہیں۔
پشاور میں جب بھی کوئی سڑک مکمل ہوتی ہے عوام تھوڑی دیر سکھ کا سانس لیتی ہے لیکن یہ سکون عارضی ہوتا ہے۔ چند ہی دنوں بعد یا تو واسا (WASA) سیوریج کی لائن ڈالنے کے لیے آ دھمکتا ہے یا پھر واپڈا بجلی کی انڈر گراؤنڈ کیبلز ڈالنے کا آغاز کر دیتا ہے۔ بعض اوقات پی ٹی سی ایل یا سوئی ناردرن گیس کمپنی بھی اپنی لائنوں کی مرمت یا تنصیب کے لیے انہی سڑکوں کو دوبارہ کھود ڈالتی ہے۔
مثال کے طور پر حاجی کیمپ اڈہ سے لے کر یونیورسٹی روڈ اور کارخانوں مارکیٹ تک حالیہ مہینوں میں متعدد بار سڑک کی کھدائی کی جا چکی ہے۔ پہلے سیوریج لائن کے لیے، پھر واٹر پائپ لائن کے لیے اور اب بجلی کی تاروں کے لیے۔ ہر بار سڑک کی سطح کھودی گئی اور پھر جلد بازی میں مٹی ڈال کر مرمت کر دی گئی۔ نتیجہ؟ سڑک پر اب بھی گڑھے موجود ہیں اور ٹریفک روزانہ گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے۔اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہوتی ہیں ۔
محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (C&W) صوبے میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا ذمہ دار ہے مگر دیگر اداروں سے رابطے کا فقدان اس قدر سنگین ہے کہ اکثر منصوبے بغیر کسی کوآرڈینیشن کے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی ماسٹر پلان، کوئی پروپوزل، کوئی پیشگی میٹنگ نہیں ہوتی۔ ہر محکمہ صرف اپنی فائل مکمل کر کے سڑک کھود دیتا ہے۔
ایک سینئر انجینئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں اکثر بغیر اطلاع کے کھدائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیوریج لائن ڈالنے کے بعد ہم سڑک بناتے ہیں مگر اگلے ماہ بجلی والے آ جاتے ہیں۔ ہمیں کوئی مربوط ہدایت یا شیڈول نہیں دیا جاتا۔یہی غیر مربوط طریقہ کار پشاور کی سڑکوں کو مسلسل تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔
تہکال، یونیورسٹی ٹاؤن، بورڈ بازار، حیات آباد اور کارخانوں مارکیٹ کی شاہراہیں نہ صرف پشاور کی تجارتی رگیں ہیں بلکہ ہزاروں گاڑیاں روز ان سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔ مگر خستہ حال راستے، کھدائی اور ٹوٹ پھوٹ نے ان سڑکوں کو ناقابلِ استعمال بنا دیا ہے۔ایک مقامی شہری خالد خان کا کہنا تھا کہ گاڑی نئی لی تھی مگر ان سڑکوں نے اسے کھٹارا بنا دیا۔ ہر ہفتے ورکشاپ جانا پڑتا ہے۔ ہماری گاڑیوں کا نقصان کون بھرے گا؟ حکومت صرف سڑک بنا کر ہاتھ جھاڑ دیتی ہے نقصان تو ہمارا ہوتا ہے۔
پشاور کی سڑکوں پر آج بھی پرانے ماڈل کی گاڑیاں اور رکشے چل رہے ہیں جن میں سے اکثر کا انجن دھواں چھوڑتا ہے۔ جب یہ گاڑیاں ناہموار سڑکوں پر سست رفتاری سے چلتی ہیں۔ تو دھواں، گرد اور شور میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس ماحولیاتی آلودگی نے شہر میں سانس، دمہ، آنکھوں کی جلن اور الرجی کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔
ڈاکٹر شمیم اختر پلمونری اسپیشلسٹ بتاتی ہیں کہ پشاور میں حالیہ برسوں میں سانس کی بیماریوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ فضائی آلودگی، دھول اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں۔ بچوں اور بزرگوں کی صحت خاص طور پر متاثر ہو رہی ہے۔
شہریوں کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔ طلباء و طالبات اور شہری روزانہ پہنچنے میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں کچھ کو بیماریاں لگ چکی ہیں کچھ کی گاڑیاں تباہ ہو چکی ہیں۔
ایک رکشہ ڈرائیور فضل رحیم کا کہنا تھا کہ پہلے رکشہ سے 1500 کما لیتے تھے اب آدھی کمائی مکینک کو دے دیتے ہیں۔ سڑکوں کی حالت نے ہمارا روزگار بھی برباد کر دیا ہے۔
طالبعلم عاصم خان کا کہتا تھا کہ یونیورسٹی جاتے ہوئے ہر روز ماسک پہننا ضروری ہو گیا ہے۔ سڑکوں پر گرد اتنی ہے کہ سانس لینا دشوار ہو چکا ہے۔
ہر سڑک کی مرمت، ہر نئی کھدائی اور ہر دوبارہ بحالی پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں صرف پشاور میں سڑکوں کی مرمت و بحالی پر تقریباً 30 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ مگر یہ رقم عوام کو سہولت پہنچانے کے بجائے کھنڈرات میں دفن ہو گئی ہے۔
عوام سوال کر رہے ہیں کہ اس فنڈ کا آڈٹ کون کرے گا؟نقصان زدہ گاڑیوں کی ذمہ داری کون لے گا؟
سڑکوں کی پائیداری کا تعین کس نے کرنا ہے؟
حکومتی وزراء اکثر پریس کانفرنسز میں ترقیاتی کاموں کی لمبی فہرستیں سناتے ہیں مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سڑکیں ناقابلِ سفر، بیماریاں عام اور شہری پریشان۔ میڈیا کا ایک طبقہ بھی ان مسائل کو معمولی سمجھ کر رپورٹنگ سے گریز کرتا ہے حالانکہ یہ مسئلہ ہر گھر، ہر فرد اور ہر دن پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
ماہرین اور شہری حلقوں کے مطابق اگر حکومت واقعی پشاور کو ترقی دینا چاہتی ہے تو درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں ۔ جامع ماسٹر پلان ہر سڑک کی تعمیر سے پہلے تمام اداروں کو شامل کر کے منصوبہ بندی کی جائے۔ یوٹیلیٹی سروے بجلی، پانی، گیس، پی ٹی سی ایل اور سیوریج لائنز کی پیشگی شناخت اور تنصیب۔ احتساب سڑکوں کی جلد بربادی یا غیر منصوبہ بند کھدائی پر سخت کارروائی۔
ماحولیاتی پالیسی پرانی گاڑیوں پر پابندی اور جدید پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کرانا۔ عوامی آگاہی سڑکوں پر جاری کام، تاخیر اور متبادل راستوں کی معلومات بروقت فراہم کرنا۔
پشاور کی موجودہ صورتحال ایک المیہ ہے جو صرف غیر منصوبہ بندی اور انتظامیہ کی غیر سنجیدگی اور بے حسی کا نتیجہ ہے۔ اگر اب بھی حکومتی ادارے اور انتظامیہ خوابِ غفلت سے نہ جاگے تو یہ شہر مزید زوال کا شکار ہو جائے گا۔ ترقی صرف سڑکیں بنانے سے نہیں بلکہ سڑکوں کو برقرار رکھنے ان پر شعور اور ذمہ داری سے کام کرنے سے ہوتی ہے۔شہریوں کی امیدیں ابھی باقی ہیں لیکن ان امیدوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے حکومتی اداروں کو نیت، تدبیر اور عمل کی ضرورت ہے ۔ وگرنہ سڑکوں پر یہ روز کا عذاب مستقل ناسور بن جائے گا۔