
**باغ و بہار ** ایم فاروق قمر
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
اگست کا مہینہ خوشیوں اور مسرتوں کا پیام لے کر آتا ہے ۔ ہر طرف چاند ستارے والے سبز پرچم لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔14 اگست 1947 کا سورج
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کی نوید لے کر طلوع ہوا تھا۔مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ انگریزوں بلکہ ہندئوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات ملی تھی۔ آزادی کیا ہے؟ آزادی کی قدر و قیمت قحط زدہ مظلوم فلسطینیوں سے پوچھئے۔ اہلِ فلسطین کی زمینیں اپنی‘ فضائیں اپنی‘ ہوائیں اپنی‘ کھیت و کھلیان اپنے مگر وہ گزشتہ ایک سو سال سے زیادہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سب کچھ اپنا ہونے کے باوجود کچھ بھی ان کا اپنا نہیں۔ اس غلامی کا نقطۂ عروج آج کل ہم غزہ کے بچوں‘ بوڑھوں‘ مردوں اور خواتین کی نسل کشی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ پونے دو سال سے اسرائیل نہتے اہلِ غزہ پر بمباری کر رہا ہے۔ رفح کی سرحد پر ہزاروں ٹرک سامانِ خورو نوش اور ادویات لیے کھڑے ہیں مگر اسرائیل ان کے راستے میں دیوار بن کر کھڑا ہے اور غزہ میں قحط ہے‘ بہت سے بچے بڑے روزانہ مر رہے ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء سے اب تک اس بے لگام‘ غاصب ریاست نے 60ہزار سے زائد اہلِ غزہ کو شہید‘ ڈیڑھ لاکھ کے قریب کو شدید زخمی کر دیا اور سارے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔
آزادی قربانی مانگتی ہے اس کے علاوہ یوم آزادی کا سب سے بڑا جو تقاضا ہے کہ وہ ہم آپس کے اختلافات کو ختم کریں اور اپنے اندر اتحاد کو قائم کریں تا کہ دشمن کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرسکیں۔ بطور آزاد قوم ہمارا یہ نصب العین ہونا چاہیے کہ ہم کسی بھی طرح کی گروہ بندی، فرقہ واریت، لسانی یا صوبائی اختلافات میں نہ پڑیں اور ہمارے عظیم قائد حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے قوم کو جو درس دیا اس میں بھی انھوں نے قوم کو اتحاد، ایمان اور تنظیم کا درس دیا۔ یعنی سب سے پہلا درس ہی اتحاد کا دیا اور کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے اتحاد بنیادی چیز ہے۔ اس کی مثال آپ مقبوضہ کشمیر میں دیکھ لیں۔ کہ وہاں ظلم و ستم ایک عرصے سے جاری ہے لیکن 5 اگست 2019ءکے بعد جو انڈیا نے وہاں ظلم و ستم بپا کر رکھا ہے وہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب ہمارے بزرگوں نے انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کی لیے کوششیں کیں تھیں جس کی یاد میں ہم یہ دن منا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں آپس میں تفرقہ بازی کا شکار ہیں پھر ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے چکر میں ہے۔ اب میں اپنی صفوں ایمان ،اتحاد اور نظم و ضبط پیدا کر کے پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کے صف اول میں کھڑا کرنا ہے۔
جشن آزادی یہ نہیں ہے کہ ہم نے جھنڈا لہرا لیا، کیک کاٹ لیا، بچوں کو سبز اور سفید کپڑے پہنا دیے یہ ظاہری تقاضے ہیں لیکن اصل مقصد جشن آزادی کا کچھ اور ہے جسے قوم کے ہر فرد بچے بوڑھے اور نوجوانوں کو ازبر کرنے کی ضرورت ہے۔ انگریزوں کے مظالم کی داستان اور پھر ہندو انتہا پسندوں کے مظالم سامنے لائے بغیر اس آزادی کی قدر قیمت کا احساس نہیں دلایا جاسکتا، حب الوطنی اور قومیت کے جذبات اس وقت تک ماند رہیں گے، جب ہم گذشتہ 78 سال کی اپنی قومی پیش رفت، ترقی و بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سالمیت کی بقا کے سلسلے میں اپنی کاوشوں کا محاسبہ کریں، جشن آزادی محض ایک رسم کا نام نہیں ہے بلکہ محاسبے کا نام ہے۔ تحریک آزادی کے دنوں میں قائداعظم سے جب بھی سوال پوچھا جاتا تھا تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں خداوند تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل قرآن کی شکل میں آئین اور دستور عطاء فرما دیا ہے۔ یہی پاکستان کا آئین اور دستور ہو گا۔ ہمیں کسی اور دستور کی ضرورت نہیں۔ جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔
78 سال گزر جانے پر بھی اسلامی جمہوری پاکستان کہلوانے کے قابل نہیں۔ پاکستان حاصل کرنے کیلئے جنہوں نے قربانیاں دیں ان کی نسلوں کو دو وقت کی روٹی کی فکر لاحق ہے۔ حکمران عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پاکستان کی قدر منزلت کا کیا احساس ہو گا جنہوں نے پاکستان کی آزادی کیلئے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا۔ ملک کے سیاسی و حکومتی قائدین کو سوچنا ہو گا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ اراضی حاصل کرنے کیلئے بانیاں پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال نے ضرورت محسوس کی تھی۔ اگر ہم آج بھی خود انحصاری کے حصول کیلئے پُر عزم ہو جائیں تو قدرت نے ہمیں وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ جنہیں بروئے کار لاکر قوم و ملک کی تقریر بدلی جا سکتی ہے۔