
تحریر: محمد محسن اقبال
جنوبی ایشیا کی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کبھی مکمل ہم آہنگی کا روپ نہ دھار سکے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی کابل نے اسلام آباد کو ایسے امتحانات میں ڈالا جن کے پس پردہ زیادہ تر بھارت کا اثر و رسوخ کارفرما رہا۔ یہ وہی افغانستان ہے جس نے 1947 میں پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کر کے تاریخ رقم کی اور وہ واحد ملک ٹھہرا جس نے نئے وجود میں آنے والی اسلامی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر قبول کرنے میں پس و پیش کیا۔
اس کی اصل وجہ ڈیورنڈ لائن کا تنازع تھا، وہ لکیر جو 1893 میں برطانوی حکومت نے امیرِ افغانستان اور برصغیر کے درمیان کھینچی۔ پاکستان نے آزادی کے بعد اس سرحد کو بطورِ وراثت قبول کیا مگر کابل نے اسے کبھی دل سے تسلیم نہ کیا۔ 1949 میں افغانستان نے یکطرفہ اعلان کر دیا کہ وہ ڈیورنڈ معاہدے کو نہیں مانتا اور پھر 1950 میں ’’پشتونستان‘‘ کے شوشے کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی، جس سے علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت ملی۔
1961 میں دونوں ممالک کے تعلقات اس حد تک کشیدہ ہوئے کہ پاکستان نے سرحدیں بند کر دیں، تجارتی راستے منقطع ہو گئے اور سفارتی تعلقات معطل کر دیے گئے۔ اگرچہ ایران کی ثالثی کے نتیجے میں 1963 میں تعلقات بحال ہوئے لیکن بداعتمادی کی دیوار کبھی نہ گر سکی۔ 1979 میں سوویت افواج کی یلغار نے اس خطے کو ایک نئی آگ میں جھونک دیا۔ پاکستان مجاہدین کا سب سے بڑا معاون بن کر ابھرا، تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی اور اس جنگ کے تمام سماجی، معاشی اور سیکیورٹی بوجھ کو سہنے پر مجبور ہوا۔ لیکن کابل سے شکریہ ادا کرنے کے بجائے مزید مسائل درپیش آئے اور افغان سرزمین بڑی طاقتوں کے کھیل کا میدان بن گئی۔
1989 میں سوویت انخلا کے بعد خانہ جنگی کی آگ نے پاکستان کو پھر اپنی لپیٹ میں لیا۔ 1990 کی دہائی میں طالبان کے عروج پر اسلام آباد نے استحکام کی امید میں روابط بڑھائے لیکن 9/11 کے بعد افغانستان پاکستان مخالف عناصر کی آماجگاہ بن گیا۔ سرحد پار سے دہشت گردی کے حملے اور پاکستانی فورسز پر گوریلا کارروائیاں اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی تھیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بداعتمادی کی فضا برقرار ہے۔
اس پرآشوب تاریخ کے تناظر میں موجودہ علاقائی صورتِ حال ایک نیا پہلو رکھتی ہے۔ چین نے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور خاص طور پر سی پیک کے ذریعے اس خطے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ بیجنگ اپنی عملی سوچ کے تحت یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی سرمایہ کاری بدامنی کی نذر ہو جائے۔ اسی لیے اس نے ایک ہی میز پر ایک ہی ایجنڈے کے تحت پاکستان، افغانستان اور چین کو بٹھانے کی کوشش کی تاکہ امن اور اقتصادی تعاون کو مشترکہ مقصد بنایا جا سکے۔
اسی پس منظر میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی حالیہ ملاقاتیں نہایت اہم ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے بغیر نہ صرف علاقائی استحکام ممکن ہے بلکہ سی پیک کی سلامتی بھی خطرے میں رہے گی۔ افغان وزیرِ خارجہ، جو ایک طویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ملک کی نمائندگی کرتے ہیں، نے اعتماد کی بحالی اور مستقبل میں دشمنی سے گریز کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس دوران چین کے وزیرِ خارجہ ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں، دونوں ممالک پر زور دیتے ہوئے کہ وہ روابط، تجارت اور دہشت گردی کے انسداد جیسے مشترکہ نکات پر توجہ دیں۔ یہ سہ فریقی وزارتی مذاکرات نہ صرف بیجنگ کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ برسوں کی بداعتمادی کو تعمیری تعاون میں بدلنے کے امکان کو بھی جنم دیتے ہیں۔
فی الحال پاکستان ایک منفرد سفارتی پوزیشن میں کھڑا ہے۔ دہائیوں میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ امریکہ وقتی طور پر بھارت کے سحر سے نکل کر جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن پر دوبارہ غور کر رہا ہے۔ افغانستان بھی، جو اندرونی خلفشار اور تنہائی سے تنگ آ چکا ہے، چین کے قریب آیا ہے اور پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے لیے آمادگی دکھا رہا ہے۔ نئی دہلی کے لیے یہ صورتِ حال اس کے اثرورسوخ میں کمی کا اشارہ ہے، کیونکہ وہ طویل عرصے سے کابل کو اسلام آباد کے خلاف توازن قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس عظیم شطرنج کے کھیل میں بھارت کو ایک شکست آمیز منظر کا سامنا ہے، جب کہ بساط پاکستان کی سفارتکاری کے حق میں دوبارہ ترتیب پا رہی ہے۔
تاہم تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ امید کے ساتھ ساتھ احتیاط بھی لازم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ عارضی تعاون اور بار بار ٹکراؤ کے درمیان جھولتے رہے ہیں۔ موجودہ لمحہ کامیابی کی خوشبو ضرور رکھتا ہے مگر اس کے لیے انتہائی محتاط حکمتِ عملی درکار ہے۔ اسلام آباد کے لیے یہ امتحان ہے کہ وہ ان سفارتی مواقع کو کس مہارت سے دیرپا فوائد میں بدلتا ہے۔ تاریخ کا سبق واضح ہے: صرف خوش گفتاری سے خیرسگالی برقرار نہیں رہتی، اس کے لیے ایسے عملی طریقہ کار چاہیے جو بنیادی تنازعات کو حل کریں، اقتصادی فوائد کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائیں اور سرحدوں کو دراندازی سے محفوظ رکھیں۔
تاہم اشارے حوصلہ افزا ہیں۔ چین کی ثالثی کے تحت افغانستان کی پاکستان کے ساتھ بات چیت کی آمادگی اور تینوں وزرائے خارجہ کی براہِ راست شمولیت اس بات کا اعتراف ہے کہ پرانی دشمنیوں نے نہ امن دیا ہے نہ خوشحالی۔ اگر یہ سہ فریقی ڈھانچہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ نہ صرف سرحدی علاقوں میں استحکام لائے گا بلکہ ایسے تجارتی راستے بھی کھولے گا جو جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا اور اس سے آگے کی منڈیوں سے جوڑ دیں گے۔ پاکستان کے لیے اس کا مطلب صرف مغربی سرحد پر سلامتی نہیں بلکہ خطے کے اقتصادی مرکز کے طور پر ابھرنے کا امکان بھی ہوگا۔
وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ وقتی کامیابیوں کو مستقل حکمتِ عملی میں ڈھالا جائے تاکہ ماضی کی قربانیاں مستقبل کی نسلوں کے لیے ثمر آور بن سکیں۔ فی الحال پاکستان مضبوط پوزیشن میں ہے، اس کا پرچم علاقائی سفارتکاری میں سر بلند ہے اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کے کھلنے کا دروازہ، بظاہر پہلی بار، کھلتا دکھائی دے رہا ہے۔