
تحریر: محمد محسن اقبال
پاکستان نے اپنی تخلیق کے ساتھ ہی، اگست 1947 سے، اپنی دفاعی قوت کو مضبوط بنانے کا عزم کر لیا تھا۔ نو زائیدہ ریاست اپنے مشرقی ہمسائے کی جانب سے لاحق خطرات سے بخوبی آگاہ تھی اور اسی لیے اس نے سختیوں کے باوجود سلامتی کو اپنی پہلی ترجیح بنایا۔ یہ عزم آج بھی قائم ہے۔ چند ماہ قبل دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا اور روایتی جنگ میں شاندار مہارت دکھاتے ہوئے بھارتی خطرے کی چودہ پرتیں بے مثال انداز میں توڑ ڈالیں۔
مگر اس فتح کے باوجود ایک ایسا میدان تھا جسے ہم نے یا تو نظر انداز کیا یا اپنی نادانی پر مطمئن ہو گئے۔ اسی خلا میں بھارت نے ہمیں کئی بار شکست دی، مگر اس بار نہ توپ کے ذریعے، نہ میزائل کے ذریعے، بلکہ ان دریاؤں کے پانی کے ذریعے جو اس کے قبضے میں ہیں۔ ہماری فتح کے فوراً بعد بھارت نے ایک ایسی جارحیت کا سہارا لیا جو بظاہر شور شرابے سے خالی تھی مگر اپنی تاثیر میں کسی طرح کم نہ تھی۔ بھارت نے اپنے زیرِکنٹرول دریاؤں کا پانی چھوڑا اور اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے—ہولناک سیلاب کی صورت میں۔ دانا لوگ ہمیشہ نصیحت کرتے ہیں کہ دشمن پر کڑی نظر رکھو اور اس سے کسی نرمی کی توقع مت کرو، لیکن اس باب میں پاکستان نے طویل غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔
جون کے آخر سے اگست 2025 تک پاکستان کو ایسے تباہ کن سیلابوں کا سامنا رہا جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ شدید بارشوں اور اچانک بادل پھٹنے کے واقعات نے خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور وفاقی دارالحکومت کے علاقوں میں طوفانی سیلاب کو جنم دیا۔ اگست کے آخر تک نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق آٹھ سو سے زائد افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ صرف خیبر پختونخوا میں 479 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے جبکہ 347 زخمی ہوئے۔
یہ صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ بونیر، سوات، باجوڑ، بٹگرام، مانسہرہ، شانگلہ، لوئر دیر اور ایبٹ آباد بدترین تباہی کا شکار ہوئے۔ بونیر ضلع میں تو المیہ کچھ یوں تھا کہ 158 سے زائد افراد لقمۂ اجل بنے، درجنوں لاپتہ ہیں اور ریسکیو آپریشن کے دوران ایک ہیلی کاپٹر گرنے سے پانچ اہلکار بھی شہید ہوگئے۔
پنجاب بھی شدید خطرے میں ہے۔ قصور اور بہاولنگر جیسے مشرقی اضلاع سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو انڈین ڈیموں سے چھوڑے جانے والے پانی کے پیش نظر انخلا کرنا پڑا۔ دریائے راوی، ستلج اور چناب—جو بھارت سے نکلتے ہیں—اب پاکستان کے زرعی دل کو اپنی لپیٹ میں لے کر خوراک کی فراہمی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ فاضلکا میں کواوالی پل شکستگی کے دہانے پر ہے اور اس کا ٹوٹ جانا دس دیہاتوں کے مکینوں کے لیے نئی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
معاشی اثرات بھی کچھ کم نہیں۔ 26 جون سے اب تک 1676 عمارتوں کو نقصان پہنچ چکا ہے جن میں سے 562 مکمل طور پر زمین بوس ہو گئیں۔ صرف خیبر پختونخوا میں انفراسٹرکچر کے نقصانات 20 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ 37 اسکول، 83 سڑکیں، 10 پل، 200 سے زائد آبپاشی چینل اور 70 کے قریب واٹر سپلائی اسکیمیں ناقابلِ استعمال ہو چکی ہیں۔ آبپاشی کے محکمے کو اکیلے 10.3 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے۔
انسانی اور زرعی نقصان بھی ناقابلِ بیان ہے۔ ہزاروں مویشی بہہ گئے، کھیت کھلیان اجڑ گئے، گھر منہدم ہوئے اور لاکھوں افراد بے یار و مددگار محفوظ مقامات کی جانب نکلنے پر مجبور ہوئے۔ پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینیں ڈوب گئیں۔ گندم، چاول اور گنے جیسی فصلیں برباد ہو گئیں۔ یہ تباہی لازمی طور پر خوراک کے بحران کو اور زیادہ شدت بخشے گی۔ ماہرین معیشت نے خبردار کیا ہے کہ اجناس کی یہ بربادی مہنگائی کو مزید بڑھا دے گی اور پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسنے والا عام آدمی مزید کرب میں مبتلا ہوگا۔ یہ سیلاب صرف ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ معیشت اور بقا کے لیے ایک مہلک خطرہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم نے پانی کے شعبے کو دفاع کی طرح اولین ترجیح کیوں نہ بنایا؟ وہ ڈیم کیوں نہ بنائے گئے جو ان پانیوں کو ذخیرہ کرکے تباہی سے بچا سکتے تھے؟ بالخصوص کالا باغ ڈیم، جس کی تعمیر دہائیوں سے سیاست اور صوبائی تعصبات کی نذر ہو چکی ہے۔ ماضی کے حکمران اگر واقعی دوراندیش رہنما ہوتے تو اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے اور آنے والی نسلوں کو تحفظ دیتے۔ مگر انہوں نے خاموشی یا وقتی مفاد کو ترجیح دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے اپنے بچوں کے لیے آبی ذخائر کے بجائے سیلاب ورثے میں چھوڑے، استحکام کے بجائے کمزوری، اور سلامتی کے بجائے خطرہ۔
یہ تباہی صرف بیرونی ہاتھ کا نتیجہ نہیں، داخلی کوتاہیاں بھی اس میں شامل ہیں: جنگلات کی کٹائی، ناقص شہری منصوبہ بندی، غیر قانونی تعمیرات، کمزور پشتے اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی جس نے بارشوں اور بادل پھٹنے کے واقعات کو شدید تر کر دیا۔ متاثرین کے بیانات اور ماہرین کی گواہیاں سب اس امر پر متفق ہیں کہ پانی کے ریلے اس قدر تیز اور خوفناک تھے کہ لوگ چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے، صاف پانی اور طبی امداد نایاب ہوگئی اور تباہی ہر طرف پھیل گئی۔
یہ آفت ایک واضح پیغام ہےکہ پاکستان کو فوری طور پر نئے ذخائر بنانے، پشتوں کو مضبوط کرنے، ابتدائی وارننگ نظام بہتر کرنے اور زمین کے استعمال پر سخت قوانین نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر، ہمیں سیاسی اختلافات اور باہمی رکاوٹوں سے اوپر اٹھ کر اس قومی مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ کسان، دیہات اور زرعی علاقے صرف ہنگامی امداد کے محتاج نہیں بلکہ پائیدار تحفظ کے حقدار ہیں۔
پاکستان اپنی دفاعی طاقت پر فخر کرتا ہے اور اس کی استقامت دنیا پر عیاں ہے، مگر یہ المیہ ہمیں پھر یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ اصل دفاع میں آبی وسائل کا نظم و نسق بھی شامل ہے۔ بھارت کے چھوڑے گئے دریاؤں کا یہ سیلاب محض غم و غصے کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ بصیرت، منصوبہ بندی اور مستقل مزاجی کا متقاضی ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اس سانحے کو بیداری کا ذریعہ بنائیں، کیونکہ جب تک ہم اسلحہ اور پانی دونوں پر دسترس حاصل نہیں کر لیتے، ہماری خودمختاری ادھوری رہے گی۔