
تحریر: محمد عاصم صدیقی
فضا کی لا متناہی وسعتوں میں جب شاہینوں نے اپنے فولادی پر پھیلائے تو تاریخ نے گواہی دی کہ عزم و ہمت کے آگے دشمن کی کثرت بھی رائیگاں جاتی ہے۔ پاک فضائیہ کی داستان، ایثار، قربانی اور عسکری تدبر سے عبارت ہے، جس میں 1965 کی جنگ کے سنہری ابواب اور 2025 کے معرکۂ حق کی تابناک کہانیاں مانو ایک ہی زنجیر کی دو کڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ستمبر 1965 میں جب وسائل محدود مگر ولولے بامِ عروج پر تھے، تب فضائے عرضِ پاک میں ایسے شاہین نمودار ہوئے جنہوں نے دشمن کو یہ باور کروایا کہ پاکستان کی فضائی سرحدیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔ ایم ایم عالم کا نام اس باب میں تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف سے کندہ ہے، جنہوں نے ایک ہی مشن میں پانچ بھارتی طیارے گرائے اور پوری دنیا کو پاکستانی شاہینوں کی برق رفتاری اور مہارت کا قائل کر دیا۔ اسی طرح سرفراز رفیقی، یونس، علاؤالدین اور دوسرے جانباز پائلٹس نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دشمن کو دھول چٹا دی۔ یہ تھے قوم کے دلیر سپوت، جنہوں نے کم وسائل کے باوجود فضاؤں کو مسخر کرتے ہوئے اپنی بہادری سے اقوامِ عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور اکیسویں صدی کے اس برق رفتار دور میں ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے پاک فضائیہ کی کمان سنبھالی اور اپنی غیر معمولی بصیرت اور مدبرانہ قیادت سے پاک فضائیہ کو روایتی فضائی قوت سے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی، نیکسٹ جنریشن فورس میں بدل ڈالا۔ اُن کی قیادت میں نہ صرف ملٹی رول فائٹر جیٹس بشمول جے-10سی، جدید ریڈار سسٹم سے لیس جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری طیارے اور ڈرونز بروقت آپریشنلائز ہوئے بلکہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، سپیس و سائبر وارفیئر اور ملٹی اسپیکٹرم وار کو بھی جنگی حکمت عملی کا جزوِ لازم بنا دیا گیا۔ یہی وہ جہتیں تھیں جنہوں نے 2025 میں بھارت کی جارحانہ مہم جوئی کو "آپریشن ضربِ کرار” کے ذریعے خاک میں ملا دیا۔ فضا کے سینے پر جب "آپریشن ضربِ کرار” نے اپنی آہنی مہر ثبت کی، تو لگا کہ جیسے فضاؤں نے دشمن کے غرور کو خاموش کر دیا ہو۔ یہ محض ایک آپریشن نہیں تھا بلکہ ذہانت، ٹیکنالوجی اور عزم کا وہ شاہکار تھا جس نے بھارتی فضائیہ کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کو فریب زدہ تماشہ بنا ڈالا۔ جب بھارتی فضائیہ ہٹ دھرمی سے حملہ آور ہوئی، تو شاہینوں نے جوابی کارروائی کےدوران جے-10 سی طیاروں سے بیونڈ ویثوئل رینج میزائلوں کے ذریعے حملہ کرتے ہوئے سرحد پار دشمن کے طیاروں کا ایک قبرستان بنا دیا، نیٹ ورک سینٹرک انٹیلیجنس نے دشمن طیاروں کو گھیرا اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹم نے ان میں نسب دفاعی آلات مفلوج کیئے، نتیجتاً، دشمن کے 6 لڑاکا طیارے جن میں رافیل، مگ-29، ایس یو-30، میراج-2000 اور ہیروں جیسے جدید ڈرون شامل تھے تباہ ہوکر زمیں بوس ہوئے۔ یہ وہ پل تھا جب تکنیکی مہارت، عسکری جرآت اور مدبرانہ قیادت نے مل کر دشمن کی فضا کو اپنا فسانہ سنایا، ایک ایسا فسانہ جو سرحد پار برسوں تک یاد رکھا جائے گا۔
دشمن نے جدید ہتھیاروں اور عددی برتری پر تکیہ کیا مگر ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی جانب سے وضع کردہ کل چِین اور 4.5 جنریشن کے جے-10 سی طیاروں نے اسے فریبِ نظر میں جکڑ لیا، انٹیلیجنس فیوژن اور نیٹ ورک سینٹرک آپریشنز نے بھارتی کمانڈ اینڈ کنٹرول کو ناکارہ کر کے رکھ دیا۔ یہ وہی لمحہ تھا جب فضا میں پاکستانی شاہینوں کی یلغار نے دشمن کے سینے پر خوف کے ایسے کوڑے برسائے کہ عددی برتری کا یہ کھوکھلا بُت پاش پاش ہوگیا۔رات کی تاریکی میں حملہ آور ہونے والا بزدل دشمن شاید یہ بھول چکا تھا کہ صبح کا اجالا بیانِ حق ہوتا ہے۔ جب سورج کی پہلی کرن فضاؤں کو روشن کر رہی تھی، تب فخرِ پاکستان، جے ایف-17 تھنڈر بلاک تھری نے اپنی گھن گرج سے ایسا جواب دیا کہ آئندہ برسوں کے دوران جب جب فضائی معرکوں کا ذکر ہوگا ایس-400 کی تباہی کا قصہ سرِ فہرست ہوگا۔جس دشمن کو اپنے جدید ترین ایس-400 ائیر ڈیفنس سسٹم پر ناز تھا، اُس کے غرور کو پاکستانی شاہینوں نے خاکستر کر دیا۔ جے ایف-17 تھنڈر بلاک تھری نے اپنے جدید ریڈارز، ہائپر سونک میزائلوں اور برق رفتاری سے آسمانوں کا سینہ چیرتے ہوئے نہ صرف ایس – 400 نظام کو نشانہ بنایا بلکہ ان میں سے دو سسٹمز کو تباہ کرکے دشمن کا گھمنڈ توڑا، اور یہ ثابت کیا کہ ہماری قوت محض ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عزم و ایمان میں پوشیدہ ہے۔

یہ معرکہء صرف پاک و ہند تک محدود نہ رہا بلکہ دنیا کے کونے کونے میں گونج اٹھا جب بی بی سی، سی این این اور الجزیرہ جیسے عالمی میڈیا چینلز نے پاکستانی شاہینوں کی شجاعت کی تصدیق کی اور شواہد دنیا کے سامنے رکھ کر بھارتی جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کیا۔ یوں تاریخ نے ایک بار پھر گواہی دی کہ جس قوم کے محافظ اقبال کے شاہین ہوں اور فضائیہ بقول قائد، ‘سیکنڈ ٹو نن’ ہوں تو اُسکی جانب میلی آنکھ سے دیکھنا کس قدر تباہ کن ہوسکتا ہے۔
ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی قیادت اس عسکری ضرب المثل کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی ہے کہ جنگ میں ارادے کی قوت ہی فیصلہ کن عنصر ہوتی ہے۔ اُن کے فیصلے محض وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایسی دور رس تدابیر تھے جنہوں نے پاکستان کو خطے میں تکنیکی برتری بخشی۔ اُن کی ان تھک جستجو نے دشمن کو میدانِ کارزار میں بے بس کردیا اور مادرِ وطن کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر قلعہ بنایا۔ بھارتی فضائیہ کو چند ہی گھنٹوں میں پسپائی پر مجبور ہونا پڑا اور دنیا نے دیکھا کہ تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا، فرق صرف یہ تھا کہ اب پاکستان کی فضائی قوت جدید سائبر،اسپیس اور الیکٹرانک وارفیئر کے ایک حسین امتزاج سے لازوال بنیان المرصوص بن چکی تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے شہسواروں نے 1965 میں جس میراث کو خونِ جگر سے سینچا، آج کے شاہینوں نے اسے نئی جہتوں اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ زندہ کر دیا ہے۔ یومِ دفاع کی ساعتیں اسی عہد کی تجدید ہیں کہ پاکستان کے شاہین کبھی بھی مادر وطن کے وقار پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ جیسا کہ خود ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کا کہنا ہے کہ "فضا کی وسعتیں ہماری پرواز کو قید نہیں کر سکتیں، یہ تو ہمارے عزم کا امتحان ہیں۔” اُن کی بصیرت نے اس قوم کو یہ پیغام دیا کہ دفاع صرف میزائلز اور چند لڑاکا طیاروں کا کھیل نہیں بلکہ ذہانت، ٹیکنالوجی اور بروقت فیصلوں کی جنگ ہے۔ ایم ایم عالم اور سرفراز رفیقی کے ولولے کی امین، پاک فضائیہ اس برس یوم دفاع پر دشمن کو ایک بار پھر یہی پیغام دیتی ہے کہ ایئر چیف کی قیادت میں ہم دشمن کی کسی بھی جاہریت کے خلاف، ہمہ وقت صف بستہ اور تیار ہیں۔