تحریر: محمد محسن اقبال

لال قلعہ کا دھواں اور اقتدار کی بدبو
1980 کے عشرے کے دوران بھارتی سینما کا ایک منفرد جادو تھا جو سرحدوں، زبانوں اور طبقات سے ماورا ہو کر دلوں کو چھو جاتا تھا۔ اس دور کی فلمیں تخلیقی جوہر، جذباتی سچائی اور خوبصورت کہانیوں سے مزین ہوا کرتی تھیں۔ کہانی نویس، نغمہ نگار اور ہدایت کار ہی فلم کی کامیابی کے اصل معمار سمجھے جاتے تھے۔ گھروں میں وی سی آر پر فلمیں دیکھنا نہایت سستا، گھریلو اور دلچسپ مشغلہ تھا۔ بچے فلمی مکالمے یاد کرتے، بڑے گیت گنگناتے، اور پردۂ سیمیں پر دکھائی دینے والے جذبات زندگی کے حقیقی رنگوں سے ہم آہنگ ہوتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہانیوں میں جان تھی، تخلیق خلوص سے جنم لیتی تھی، اور سینما تہذیب و احساس کا آئینہ دار تھا۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ بھارتی فلموں کا دل دھڑکنا بند ہونے لگا۔ کہانیاں اپنی روح کھو بیٹھیں، ہدایت کاری سطحی ہوگئی، اور وہ فلمیں جو کبھی معاشرے کی آرزوؤں کی ترجمان تھیں، رفتہ رفتہ سیاسی پروپیگنڈا اور ذہنی تسلط کے ہتھیار بن گئیں۔ آج بھارتی فلموں کی زوال پذیری محض فن کے زوال کی کہانی نہیں بلکہ اس امر کی علامت ہے کہ سیاست نے تخلیق کو نگل لیا ہے۔ اب ان فلموں کا مصنف، ہدایت کار اور نگران سب ایک ہی شخص ہے — نریندر سنگھ مودی۔
مودی کی یہ نئی "فلمیں” محبت، قربانی یا انسانیت کے موضوعات پر نہیں ہوتیں۔ ان کا مقصد عوامی جذبات سے کھیلنا، نفرت کو ہوا دینا اور انسانی سانحات کو سیاسی فائدے میں بدلنا ہوتا ہے۔ یہ فلمیں عام طور پر انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ریلیز کی جاتی ہیں تاکہ خوف، فہم پر غالب آ جائے اور دھوکا اخلاق پر۔ المیہ یہ ہے کہ مودی کی یہ انتخابی فلمیں ہمیشہ کی طرح بری طرح فلاپ ہو جاتی ہیں، مگر ان کی ناکامی کی قیمت باکس آفس پر نہیں بلکہ انسانی جانوں سے ادا کی جاتی ہے۔ جب بھی اس کی سیاسی فلمیں ناکام ہوتی ہیں، پاکستان کو حسبِ روایت ولن بنا دیا جاتا ہے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعتیں جو کبھی ضمیرِ قوم ہوا کرتی تھیں، اب خاموش تماشائی بن چکی ہیں۔ میڈیا جو کبھی سچائی کا علمبردار تھا، اب سیاسی کہانیوں کا ترجمان بن گیا ہے۔ کچھ دن پہلے مودی کی ایک اور فلم ریلیز ہوئی — جس کا عنوان تھا “لال قلعہ دھماکہ”۔ 10 نومبر 2025 کو دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب ہونے والے کار دھماکے نے آٹھ بے گناہ انسانوں کی جان لے لی اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ متاثرہ خاندانوں کا دکھ ناقابلِ بیان ہے، مگر ان کے غم کو بھی سیاسی اسکرپٹ کا حصہ بنا دیا گیا۔ جب واقعات کی تفصیلات سامنے آنے لگیں تو عینی شاہدین کے بیانات اور سرکاری موقف کے درمیان واضح تضادات نمودار ہوئے۔
عینی شاہدین نے کہا کہ دھماکہ جس گاڑی میں ہوا وہ سوزوکی ماروتی تھی۔ ایک شخص نے، جو امدادی کارروائی میں شریک تھا، یہ بات ویڈیو میں واضح طور پر بتائی۔ ابتدائی رپورٹوں میں بھی یہی تذکرہ آیا۔ مگر کچھ ہی دیر بعد سرکاری کہانی بدل گئی۔ وزیرِ داخلہ نے، اپنے پسندیدہ میڈیا کے ساتھ، پُر اعتماد لہجے میں اعلان کیا کہ وہ گاڑی ہنڈائی تھی۔ قومی تحقیقاتی ادارہ اور نیشنل سیکیورٹی گارڈ فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور اسے “ہنڈائی دھماکہ” قرار دے دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک ایک بھی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر نہیں آئی۔ زمینی حقائق اور سرکاری بیان کے درمیان موجود اس تضاد نے کئی سوالات کو جنم دیا؛ کیا شواہد میں رد و بدل کیا گیا؟ کیا گواہوں کو دبایا گیا؟ اگر چھپانے کے لیے کچھ نہیں تو سچ کو ظاہر کیوں نہیں کیا جاتا؟
اب آتے ہیں گاڑی کی ملکیت کے معمہ پر۔ کچھ رپورٹس کے مطابق گاڑی فرید آباد کے ندیم نامی شخص کی تھی، کچھ کے مطابق سلمان کی، جس نے اسے حال ہی میں فروخت کیا تھا لیکن رجسٹریشن اب بھی اس کے نام پر تھی۔ سرکاری کہانی میں اچانک ایک تیسرا نام شامل ہوا — طارق، پلوامہ (جموں و کشمیر) سے۔ راتوں رات یہ کہانی ہریانہ سے کشمیر پہنچ گئی، گویا اسکرپٹ میں "پلوامہ” کی یاد تازہ کرنا ضروری تھا۔ نہ کوئی ثبوت، نہ تصدیق، صرف جذبات بھڑکانے والی سنسنی۔ ناموں اور مقامات کی اس پراسرار تبدیلی نے واضح کر دیا کہ مقصد سچ نہیں بلکہ خوف پیدا کر کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔
دھماکے کی نوعیت بھی اب تک مبہم ہے۔ کیا یہ دہشت گردی تھی یا محض سی این جی سلنڈر کا حادثہ؟ ابتدائی امدادی اہلکاروں نے دوسرے امکان کو زیادہ درست سمجھا، مگر فرانزک رپورٹ سے پہلے ہی میڈیا نے اسے "دہشت گرد حملہ” قرار دے دیا۔ حقیقی دہشت گرد کارروائیوں میں حملہ آور بچ نکلتے ہیں، مگر یہاں گاڑی میں موجود سب افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے — ایک ایسا نمونہ جو اکثر جعلی کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے۔ اموات کی تعداد آٹھ مقرر کی گئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ نہ مزید تفتیش، نہ وضاحت — بس وہی گونجتا ہوا بیانیہ جو سیاسی مقاصد کے لیے موزوں تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حقائق حکومت کے بیانیے سے ٹکراتے ہیں، اسکرپٹ فوراً بدل دیا جاتا ہے۔ کبھی جعلی مقابلے، کبھی مذہبی منافرت، اور ہر بار ایک ہی نتیجہ: نیا دشمن تراشو، جذبات بھڑکاؤ، ووٹ حاصل کرو۔ یہ مصنوعی خوف کئی مقاصد پورے کرتا ہے — اسلاموفوبیا کو بڑھاتا ہے، کشمیریوں کو بدنام کرتا ہے، عوام کی توجہ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے حقیقی مسائل سے ہٹاتا ہے، اور ہمیشہ پاکستان کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کھیل میں انسانی سانحہ ایک تجارتی مال بن چکا ہے، سچ دبایا جاتا ہے، اور انسانیت کو سیاست کی قربان گاہ پر چڑھا دیا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ معاشرہ اس سب کے باوجود بے حس ہو چکا ہے۔ چھبیس خاندان اجڑ گئے، آٹھ زندگیاں ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئیں، مگر قومی گفتگو میں انسانیت کی جگہ سیاسی حکمتِ عملی نے لے لی ہے۔ ان متاثرین کو انصاف چاہیے تھا، پروپیگنڈا نہیں۔ سچ چاہیے تھا، فریب نہیں۔ لیکن مودی کے بھارت میں اب غم بھی ایک اداکاری بن چکا ہے، اور سیاست و فن کے درمیان کی لکیر مٹ چکی ہے۔
بھارت وہ ملک تھا جس نے کبھی دنیا کو بتایا تھا کہ فلمیں دلوں کو جوڑتی ہیں، زخموں کو بھرتی ہیں، اور خواب جگاتی ہیں۔ آج وہی ملک اپنی فلموں کو نفرت، فریب اور تسلط کا ذریعہ بنا بیٹھا ہے۔ جب فن ہتھیار بن جائے اور سیاست تماشہ، تو قوم اپنا اخلاقی اور تخلیقی وجود دونوں کھو دیتی ہے۔ لال قلعہ دھماکہ، مودی کی انتخابی فلموں کی طرح، شاید وقتی طور پر اندھے پرستاروں سے داد سمیٹ لے، مگر تاریخ اسے ایک اور فلاپ فلم کے طور پر یاد رکھے گی — سچائی کے باکس آفس پر بھی، اور انسانیت کے ضمیر میں بھی۔
https://timelinenews.com.pk/my-lahore-was-not-like-this/
https://dailytimeline.pk/?p=9410
https://dailytimeline.pk/wp-content/uploads/2025/11/لال-قلعہ-کا-دھواں-اور-اقتدار-کی-بدبو.jpg
https://dailytimeline.pk/wp-content/uploads/2025/11/لال-قلعہ-کا-دھواں-اور-اقتدار-کی-بدبو-1.jpg
