
سنٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (کیس)، لاہور نے ۱۷ جولائی ۲۰۲۵ کو ایک اہم سیمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا: “مصنوعی ذہانت، الیکٹرانک جنگ، سائبر جنگ اور بغیر پائلٹ فضائی نظام: نئی نسل کی فضائی جنگ کا نیا زاویہ”۔ اس علمی نشست میں ماہرین، اساتذہ، طلبہ، اور دانشوروں کی کثیر تعداد نے شرکت کی
تقریب کا آغاز ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) ڈاکٹر نوید خالق انصاری، ڈائریکٹر کیس لاہور، کے فکر انگیز کلمات سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیاں جنگ کے خدوخال میں انقلابی تبدیلی لا رہی ہیں، اور ان کا اثر نہ صرف پاکستان فضائیہ کی عملی تیاری بلکہ اس کی تزویراتی سمت پر بھی گہرا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر یاسر ایاز، چیئرمین نیشنل سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس، نے کلیدی خطاب میں فرمایا کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی عسکری میدان میں بارود اور ایٹمی ہتھیاروں کے بعد سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ ان کے مطابق فضائی افواج کے پاس اے آئی کو اپنانے کی سب سے زیادہ گنجائش موجود ہے، بالخصوص اووڈا لوپ کو بہتر بنانے اور کمانڈ سینٹرز کی فعالیت بڑھانے میں۔ انہوں نے امریکہ کے جوائنٹ آل ڈومین کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جدید افواج کو اب مشترکہ اور ہم آہنگ انداز میں، تمام محاذوں پر بیک وقت کام کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہوگی۔
گروپ کیپٹن فرحان احمد، جو سائبر آپریشنز کے ماہر ہیں، نے کہا کہ جنگ کا انداز اب پلیٹ فارم بمقابلہ پلیٹ فارم سے نکل کر نظام بمقابلہ نظام بن چکا ہے۔ ان کے مطابق، سائبر نظام نیٹ ورک پر مبنی جنگ کی بنیاد بن چکا ہے، اور سینسرز، حملہ آوروں اور فیصلہ سازوں کا باہمی انضمام ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان فضائیہ نے تقریباً ۲۵،۰۰۰ اثاثے سائبر سیکیورٹی نظام کے تحت مربوط کر دیے ہیں۔ آپریشن ضربِ کرّار پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاک فضائیہ کی سائبر فورس نے دشمن کی ۱۰۰ تنظیموں کو ۴،۴۰۰ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) عناصر کے ذریعے نشانہ بنایا اور صفر بمقابلہ سڑسٹھ کی شاندار آئی سی ٹی تباہی درجہ بندی حاصل کی۔ اس کا نتیجہ توانائی، ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی نظاموں کی معطلی کی صورت میں نکلا۔
ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) رضا حیدر، ڈائریکٹر کیس اسلام آباد، نے کہا کہ پانچویں نسل کی جنگ میں وہی ریاست سبقت لے جائے گی جو جدید ترین ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کر لے۔ ان کے مطابق دنیا ایک “ٹیک-پولر” یعنی تکنیکی اعتبار سے منقسم عالمی نظام کی جانب بڑھ رہی ہے، جہاں پاکستان، تُرکی اور ایران جیسے ممالک ڈرون اور الیکٹرانک جنگ میں خودانحصاری کے ذریعے اپنی تزویراتی خودمختاری کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
آخر میں ایئر مارشل عاصم سلیمان، صدر کیس لاہور، نے اختتامی کلمات میں کہا کہ جدید جنگ اب ظاہر تباہی سے نکل کر خاموش خلل کی جنگ بن چکی ہے۔ اس نئے تناظر میں تین اصول واضح ہو چکے ہیں: مقامی سطح پر تیار کردہ نظاموں کے ذریعے تکنیکی خودمختاری، مختلف جہتوں کی ہم آہنگی کے ساتھ مشترکہ کارروائیوں کی صلاحیت، اور حالات کے مطابق فوری ردعمل دینے کی پھرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضربِ کرّار نہ صرف پاکستان کے عزم کا مظہر تھا بلکہ اس نے مستقبل کی ڈیجیٹل جنگ کے میدان میں پاکستان کی تیاریوں کا عملی اظہار بھی کیا۔ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی قیادت میں اس آپریشن نے مصنوعی ذہانت، سائبر اور الیکٹرانک نظاموں کے ساتھ ساتھ بغیر پائلٹ فضائی پلیٹ فارمز کا شاندار انضمام ظاہر کیا۔
آپریشن میں ڈرون کے درست حملوں، دشمن کے ریڈار نظاموں کی الیکٹرانک مداخلت، اور فضائی جنگی منصوبہ بندی کو مفلوج کر دینے والے سائبر حملوں کے ذریعے پاکستان نے نہ صرف اپنی عملی برتری دکھائی بلکہ ذہنی بالادستی بھی قائم کی۔ اس جنگ نے یہ پیغام دیا کہ اب کامیابی کا معیار محض ہتھیار نہیں بلکہ وہ نظام، رفتار، لچک، اور ذہانت پر مبنی فیصلہ سازی ہے جو ایک ریاست کو برتری دلاتی ہے۔ آخر میں، شرکاء نے تینوں مسلح افواج کے مابین تعاون کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اے آئی، سائبر-الیکٹرانک وارفیئر، اور بغیر پائلٹ نظاموں کے ذریعے مؤثر کثیرالجہتی جنگی حکمت عملی اپنائی جا سکے۔