سفیرپاکستان رضوان سعید شیخ کا متنازعہ علاقے پر عالمی توجہ کا مطالبہ
تقریب میں کشمیر تنازعہ کے حوالے سے بیانیہ کی جنگ اور مسئلے قانونی حیثیت کو اجاگر کیا گیا
واشنگٹن، ڈی سی، 27 اکتوبر 2025
واشنگٹن، ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے نے یومِ سیاہ کشمیر کا اہتمام کیا، جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے عوام کی حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کے حوالے سے پاکستان کی غیر متزلزل اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔
اس تقریب میں پاکستانی امریکن کمیونٹی، تعلیمی اداروں، تھنک ٹینکس، میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا اورعلاقے میں جاری بحران کو اجاگر کیا۔
اس موقع پر صدرِ پاکستان، وزیراعظم اور نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ کے پیغامات بھی پڑھ کر سنائے گئے، جن میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کے حق کے حصول تک عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر کی بھرپور وکالت جاری رکھنے کے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کو دہرایا گیا۔

تقریب کی ایک خاص بات سعود سلطان کی تصنیف کردہ کتاب "جموں و کشمیر – فراموش شدہ داستان: مسخ شدہ آغاز سے حقِ آزادی کی پامالی تک” کی رونمائی تھی۔ کتاب کے مصنف نے تنازعہ کشمیر کے پس منظر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بتایا کہ ان کی یہ کتاب کس طرح مسئلہ کشمیر پر دہائیوں پر محیط بھارتی ریاستی پروپیگنڈے کو چیلنج اور اس کے پردے چاک کرتی ہے۔ ان کی کتاب ایک مستند، حوالہ جاتی اور مکمل تحقیق پر مبنی تجزیہ پیش کرتی ہے کہ کس طرح سے تاریخی حقائق کو منتخب طور پر چھپانے، توڑ مروڑنے اور مسخ کرنے کے ذریعے کشمیر پر بھارتی بیانیہ گھڑا اور پھیلایا گیا۔
اپنے خطاب میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر، رضوان سعید شیخ نے مقررین اور شرکاء کا ان کے بصیرت افروز خیالات پر شکریہ ادا کیا اور تنازعہ کشمیر سے متعلق حقائق اور قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔
سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ نے کہا کہ یہ حقیقت کسی بھی تجزیے میں نظر انداز نہیں ہونی چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ دو جوہری ہمسایوں کے درمیان جنگ چھیڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جو چیز غیر قانونی ہے اسے سیاسی یا اقتصادی طاقت کے ذریعے کبھی بھی بے عیب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سفیر پاکستان نے اس بات پربھی زور دیا کہ حالیہ برسوں میں اہم علاقائی اور عالمی پیش رفت کی روشنی میں کشمیر کے بارے میں عالمی نقطہ نظر تبدیل ہوا ہے، جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ نوعیت پر پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید کرتا ہے۔
سفیر پاکستان نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے درمیان مماثلت بیان کرتے ہوئے دونوں کو حق خودارادیت کے اٹوٹ حق اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں شامل وعدوں کی تکمیل پر مبنی جدوجہد قرار دیا۔
سفیر پاکستان نے مزید کہا کہ کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قراردادیں فلسطین پر موجود قراردادوں سے ایک مشترکہ بنیاد رکھتی ہیں؛ یہ دونوںقرار دادیں مقبوضہ علاقوں کے عوام کو اپنا مستقبل خود طے کرنے کے حق پر مبنی ہیں۔
سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کو ممکن بنانے کے کردار کو بھی سراہا۔
انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ثالثی کی تجویز کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
کشمیر کا حل اس تنازعے پر بات چیت، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، بین الاقوامی وعدوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اس کے پرامن حل کی تلاش میں مضمر ہے۔
تقریب کے ممتاز مقررین نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو جبر اور قبضے کے خلاف ان کی جدوجہد میں ان کے حوصلے اور ثابت قدمی کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے میں پاکستان کی فعال سفارت کاری کی تعریف کی اور گزشتہ سال کو پاکستان کے لیے اہم سفارتی کامیابیوں کا دور قرار دیا۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق سفیر توقیر حسین نے سعود سلطان کی تحقیق پر مبنی کتاب کو دہائیوں پر محیط مسخ شدہ عالمی تاثرات کا باریک بینی سے جواب قرار دیا، جو بھارت کے 1947 کے قبضے کو سوچی سمجھی سازش ثابت کرتی ہے۔ انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ بدلتی ہوئی جیو پولیٹکس نے کشمیر کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں، اور بھارت کی مئی 2025 کی پہلگام جارحیت پر پاکستان کے مؤثر ردعمل کا حوالہ دیا جس نے نئی دہلی کی لاپرواہی اور کمزوری دونوں کو بے نقاب کیا۔ سابق سفیر نے پاکستانی اور کشمیری کوششوں کو دوگنا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ حقیقی خودمختاری عوام کی مرضی سے جنم لیتی ہے، نہ کہ جبری الحاق کی دستاویزات سے۔

عالمی کشمیر آگاہی فورم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے مئی 2025 کی جنگ بندی کرانے میں مدد کے بعد صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا حوالہ دیا اور کشمیریوں کی جاری جدوجہد کے لیے نیک تمنائوں اور امید پر زور دیا۔ مسٹر فائی نے جیل میں قید کشمیری رہنماؤں یاسین ملک، شبیر شاہ اور مسرت عالم کی غیر مشروط رہائی کا بھی طالبہ کیا اور انہیں عظیم نیلسن منڈیلا سے تشبیہ دی۔
واشنگٹن میں ڈان کے نمائندے انور اقبال نے سعود سلطان کی کتاب کو ایک "ٹائم مشین” قرار دیا جو کشمیر کی اصل اور غیر مسخ شدہ تاریخ کو آشکار کرتی ہے۔
انہوں نے بھارت کے 2019 کے "انضمام” کو "لاکھوں سروں پر بیوروکریٹک رقص” کے مترادف قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی، اور ان بلیک آؤٹس کا مذاق اڑایا جنہیں "ابہام کم کرنے” کے جواز کے تحت نافذ کیا گیا تھا۔
انور اقبال نے پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی وکالت کا موازنہ بھارت کی جبر و دباؤ پر مبنی پالیسیوں سے کیا۔
معروف ادبی شخصیت ڈاکٹر عارف محمود نے تحریک مزاحمت میں ادب کے کردار پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح یہ اظہارات تحریک آزادی کی شمع کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
محترمہ نورین طلعت عروبہ نے کشمیر کے موضوع پر ایک نظم پڑھی جسے سامعین نے بھرپور پذیرائی اور داد کے ساتھ سراہا۔
تقریب کے اختتم پر سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ نے سعود سلطان کو کشمیر کے موضع پر علمی اور معروضی تحقیق پر مبنی کتاب لکھنے پر مبارک باد پیش کی اور ہندوستان کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی میں شامل ہونے پر تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ ختم شُد
