
تحریر سدرہ رفاقت
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ محض ایک مصرعے کی حد تک مقید نہی بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ ،سیاست اور روز ازل سے خطے میں جاری کشیدگی کا نوحہ ہے ۔درحقیقت یہ دو مختلف نظریات رکھنے والے ممالک کے درمیان دشمنی کی تلخ مگرانوکھی داستان ہے جن میں محبت ہونے کے باوجود روزمرہ کی نوک جھونک ، سیاسی جماعتوں کے اقتدارمیں آنے اور غیر معینہ مدت کے لیے اقتدار میں رہنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے
فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں چھپے اقتدار کے اس چوہے بلی کے کھیل میں بات اب ایک دوسرے کی سالمیت تک آن پہنچی ہے
اگر ماضی کے پّنے پلٹ کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایک ہی شکم سے جنم لینے والے یہ دو بچے اب ایک دوسرے کے خلاف محاز آ رائیاں کرتے نظر آ رہے ہیں
یہ کھیل 1947 سے شروع ہوا ،ابھی تک جاری ہے اور نہ جانے مزید کتنی نسلیں اس کھیل کی کھلاڑی ہونے کی دعویدار ہوں گی
کہانی کی شروعات وادیِ کشمیر سے ہوتی ہے جب بھارت ازلی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیتا ہے ،قبائلی رضاکار میدان میں آتے ہیں ،بھارت کو ناکوں چنے چبواتے ہیں اور کشمیر کا تیس سے چالیس فیصد حصہ بھی اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں جسکو موجودہ دور میں آزاد کشمیر پکارا جاتا ہے ،دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کو دیکھ کر اقوام متحدہ میدان میں کودا اور جنگ بندی کروا دی جسکے نتیجے میں مسئلہ کشمیر ایک کبھی نہ حل ہونے والا مسئلہ بن گیا اور دونوں۔ ممالک میں نفرت کی جڑوں نے مزید زور پکڑنا شروع کر دیا
مسئلہ کشمیر کو لے کر اگلی جنگ 1965ء میں ہوتی ہے جس میں پاکستان اور بھارت ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن نتیجہ ایک بار پھر اقوام متحدہ کی ثالثی پر ہوا اور سترہ دن جاری رہنے والی یہ جنگ بغیر کسی حتمی نتیجے کے 22 ستمبر 1965 کو اختتام کو پہنچی ۔کون ہارا ،کون جیتااس کا تا حال کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکا
لیکن برطانوی وزیر اعظم Neviller chamberlain
کے مطابق
"جنگ میں چاہے کوئی بھی خودکو فاتح کہے ،در حقیقت کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا ،سب ہی ہارنے والے ہوتے ہیں”
لہذا پہلا نقصان دونوں ملکوں کے باسیوں ،دوسرا نقصان دونوں ممالک کی افواج اور تیسرا بڑا نقصان دونوں ممالک کی معیشت کا ہوا ۔
1971 میں پاکستانی سیاست کے اقتدار کے کھیل اور بھارت کی مجموعی کوششوں کے نتیجے میں ایک اور بڑا دھچکا پاکستان کو لگا ،جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا ،اس زخم کا درد آج بھی پاکستان کی رگوں میں موجود ہے ۔
1999 ءکی کارگل وار پاکستان کی تاریخ کا ایک اور کٹھن باب تھا ،یہ پاک بھارت جنگ کم درحقیقت پاکستانی فوج اور سیاست و اقتدار کی جنگ زیادہ مانی جاتی ہے ۔جنگ بندی کے بعد پرویز مشرف پر جنگ کی منصوبہ بندی پر حکومت اور سیاسی قیادت کو لاعلم رکھنے کا الزام لگا ،فوج اور حکومت کے تعلقات خراب ہوئے اور اس طرح اکتوبر 1999 کو ایک بار پھر جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ۔
2025 ء کی حالیہ جنگ ایک مختصر مسلح تنازعہ تھا جو 7 مئی 2025 کو شروع ہوا،پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر دہشتگرد ملک ہونے کا الزام لگایا گیا اور اس کے بدلے میں رات کی تاریکی میں بھارت کی طرف سے پاکستان پر میزائل حملے کیے گئے،جسے دنیا آپریشن سندور کے نام سے بلاتی ہے
ان حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی سرحدی جھڑپوں اور ڈرون حملوں کا تبادلہ بھی ہوا
جس کے جواب میں پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو "آپریشن بنیان المرسوس ” کے نام سے ایک جوابی کاروائی کا آغاز کیا ،جس میں کئی بھارتی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا اور پاکستان فضائیہ کی طرف سے کئی بھارتی طیارے بھی تباہ کیے گئے ۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق پاکستان کو اس جنگ میں واضح برتری حاصل رہی خواہ وہ سفارتی میدان ہو یا دفاعی میدان ۔
حسبِ دستور ثالثی کا کردار ادا کرنے امریکن وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ میدان میں اترے اور اس میاں بیوی کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کو غیر معینہ مدت کے لیے تھما دیا گیا ۔
ان پانچ بڑی جنگوں کے علاؤہ بھی لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں ،سفارتی محاز آرائیاں ،سرجیکل سٹرائیکس جیسے بیانات اور دہشتگردی کے الزامات اس رشتے کو مسلسل زہر آلود کرتے رہتے ہیں
لیکن سچ تو یہ ہے کہ دونوں ممالک اس چپقلش کے عادی ہو چکے ہیں،جیسے میاں بیوی کی لڑائی کے بعد بھی رشتہ برقرار رہتا ہے وسیے ہی پاکستان اور بھارت پر جھگڑ کر بھی سفارتی تعلقات مکمل طور پر توڑ نہیں سکتے ۔کبھی تجارت کے دروازے کھلتے،بند ہوتے ،تو کبھی فنکار آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں ،کبھی پاکستان بھارت کرکٹ میچ اور کبھی پاکستانی چینلز بھارت میں بند ہوتے نظر آتے ہیں
ان سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل بھی غلط نہ ہو گا کہ دونوں کو جھگڑے کی عادت ہو چکی ہے -ایک ایسی عادت جو نہ زندہ رکھے نہ مارے ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ "عادت”بدل جائے اور دونوں ممالک اپنے وسائل جنگوں پر نہیں انسانوں کی فلاح پر خرچ کریں اور ہم جورو جفا کو بھول کر امن و ترقی کے شراکت دار بنیں