
**ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت، مشرق وسطیٰ میں نئی عالمی جنگ کا خدشہ**
تحریر: احسن انصاری
مشرق وسطیٰ اس وقت ایک سنگین بحران کی زد میں ہے، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تصادم خطے کو ایک وسیع اور تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ تیسرے دن بھی جاری رہنے والی اسرائیلی بمباری نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ایران، جس نے ہمیشہ اپنی خودمختاری اور امن پسندی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کھلی جارحیت کا سامنا کر رہا ہے لیکن کسی بھی حملے کا بھرپور دفاعی اور حکیمانہ جواب دے رہا ہے۔
15 جون کو اسرائیلی طیاروں نے تہران جیسے گنجان آباد شہر کو نشانہ بنایا، جہاں شہری آبادی، تعلیمی و ثقافتی ادارے اور توانائی کے مراکز تباہی کا شکار ہوئے۔ نیاوران، تجریش اور شھران جیسے علاقے جو کبھی تہذیب، تعلیم اور ترقی کی علامت تھے، اب اسرائیلی جارحیت کی بے رحم گواہی دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وزارتِ خارجہ کی لائبریری کو بھی نہیں بخشا گیا—یہ حملے کسی فوجی مہم کا حصہ نہیں، بلکہ ایک مکمل قوم کو زیر کرنے کی ناکام کوششیں ہیں۔
ایران نے اپنے دفاع میں مکمل سنجیدگی اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے مخصوص فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جن کا مقصد صرف اور صرف دشمن کی جارحیت کو روکنا اور ایک واضح پیغام دینا تھا کہ ایران اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
اسرائیل نے نطنز اور اصفہان جیسے حساس مقامات پر حملے کیے، جہاں ایران کا پرامن نیوکلیئر پروگرام جاری تھا، جو IAEA کی نگرانی میں چل رہا تھا۔ ان حملوں کا مقصد ایران کی سائنسی و دفاعی ترقی کو روکنا ہے، لیکن ایرانی قوم نے ہمیشہ کی طرح استقامت، یکجہتی اور فکری بصیرت کے ساتھ ان چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔
حملوں میں ایران کے کئی فوجی اور انقلابی رہنما شہید ہوئے، جو وطن کی سرحدوں کے محافظ اور ملک کی نظریاتی اساس کے ستون تھے۔ ان قربانیوں نے ایرانی قوم میں نیا عزم پیدا کیا ہے۔ رہبر معظم آیت اللہ علی خامنہ ای نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جنرل امیر حاتمی کو افواج کی کمان سونپی، جن کی قیادت میں دفاعی حکمتِ عملی مزید فعال ہو چکی ہے۔
انسانی نقصانات بھی انتہائی دردناک ہیں۔ ایران میں 400 سے زائد شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں بے گناہ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ سب ایک ایسی جارحیت کا نتیجہ ہے جو بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ اسرائیلی حملوں نے عام شہریوں کو ہدف بنایا، جس کے بعد تہران کے شہری محفوظ مقامات کی تلاش میں مجبوراً میٹرو اسٹیشنوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
اسرائیل میں بھی جوابی حملوں سے کچھ نقصان ہوا، لیکن ایران نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ اس کا مقصد انتقام نہیں بلکہ دفاع ہے۔ اسرائیل کی بٹ یام ریفائنری اور وائزمین انسٹی ٹیوٹ پر ایرانی حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایران صرف ان اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے جو جنگی اور معیشتی جارحیت میں ملوث ہیں۔
علاقائی سطح پر ایران کو تنہا کرنے کی کوششیں پہلے ہی ناکام ہو چکی ہیں۔ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی قوتوں کو گزشتہ سال نقصان ضرور پہنچا، لیکن ایرانی اثر و رسوخ اور اس کی نظریاتی بنیادیں آج بھی مضبوط ہیں۔ یمن کے حوثیوں کی جانب سے اظہارِ یکجہتی اس بات کی علامت ہے کہ ایران خطے کے مظلوموں کا حقیقی ترجمان ہے۔
بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور مغرب کی جانب سے غیر جانبداری کے دعوے مشکوک ہو چکے ہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کو معطل کرنا ایک افسوسناک قدم ہے، جب کہ امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کو مکمل کھلی چھوٹ دینا ظاہر کرتا ہے کہ امن کے دعویدار دراصل جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ G7 اجلاس میں اگرچہ معاملہ زیرِ بحث آیا، لیکن کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
معاشی طور پر اس جنگ کے عالمی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں 9 فیصد اضافہ اور خلیجی آبی راستوں کو لاحق خطرات پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ عراق میں امریکی تنصیبات پر ممکنہ حملوں کی پیش گوئیاں دراصل مغرب کی خود پیدا کردہ صورت حال کی عکاس ہیں۔
ایران بارہا واضح کر چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ IAEA کی رپورٹیں بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ایران نے کبھی ہتھیاروں کی دوڑ کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کی۔ اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ ایران کے پاس بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے، محض پروپیگنڈہ اور جنگی ماحول کو جواز دینے کی کوشش ہے۔
امریکا کی عسکری مداخلت کا خطرہ بڑھ رہا ہے، لیکن ابھی تک صدر ٹرمپ نے اسرائیلی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ایران کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانا قابلِ قبول نہیں—یہ اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ واشنگٹن کو بھی اس بحران کے پھیلاؤ کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔
آج مشرق وسطیٰ کی تاریخ ایک نازک موڑ پر ہے۔ ایران نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ مظلوم، محصور اور مخالف حالات میں بھی وقار، دانشمندی اور مزاحمت کی علامت ہے۔ عالمی برادری کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ امن کے ساتھ کھڑی ہے یا جارحیت کے سہولت کاروں کے ساتھ۔
اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی، تو خطہ ایک ایسی آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس کے شعلے دنیا کے ہر کونے تک پہنچیں گے۔ ایران نے اب تک صبر، وقار اور اصولوں کی سیاست کا مظاہرہ کیا ہے—سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس امتحان میں کامیاب ہو پائے گی؟