
پاکستان کا ایران پر حملے کی شدید مذمت
تحریر احسن انصاری
13 جون 2025 کی رات اسرائیل نے ایران پر ایک غیر معمولی اور اچانک فضائی حملہ کیا، جسے "آپریشن رائزنگ لائن” کا نام دیا گیا۔ اس کارروائی میں ایران کی جوہری تنصیبات اور اعلیٰ فوجی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ، مسلح افواج کے چیف اور چھ جوہری سائنس دان ہلاک ہو گئے۔ تہران میں رہائشی علاقوں جیسے فراہزاد، ونک اسکوائر اور اندرزگو پر بمباری کے نتیجے میں متعدد عام شہری، جن میں بچے بھی شامل تھے، جان سے گئے اور کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔
اسرائیلی حملے کا وقت نہایت اہم تھا کیونکہ صرف دو دن بعد 15 جون کو عمان میں ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات ہونے والے تھے۔ اس حملے نے نہ صرف ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی بلکہ ایک اہم سفارتی موقع کو بھی ضائع کر دیا، جو ممکنہ طور پر خطے میں کشیدگی کم کرنے کا ذریعہ بن سکتا تھا۔
ایران نے اس حملے کے فوری بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب 100 سے زائد ڈرونز فائر کیے، جنہیں اردن اور امریکی افواج نے اپنے علاقے میں ہی روک لیا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس حملے کو "سنگین جرم” قرار دیا اور شدید بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے فوجی قیادت میں فوری تبدیلیاں کیں۔ ایرانی فضائی حدود بند کر دی گئیں، جبکہ تہران میں خوف و ہراس کے عالم میں لوگ پیٹرول پمپوں اور سپر مارکیٹوں پر امڈ آئے۔ پورے خطے میں ہوائی سفر معطل ہو گیا اور امریکی فوج نے عراق و شام سے اپنے غیر ضروری عملے کو نکال لیا۔
اسرائیلی حملے کے ردعمل میں حزب اللہ، عراقی شیعہ ملیشیائیں اور دیگر ایران نواز گروہ جوابی حملوں کے لیے متحرک ہو گئے ہیں، جس سے خطے میں پراکسی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ عرب ممالک جیسے سعودی عرب، قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات نے اس حملے کو "خطرناک اشتعال انگیزی” قرار دے کر اسرائیل کی سخت مذمت کی ہے، جبکہ اردن نے ایرانی ڈرونز روک کر خطے میں بڑھتی ہوئی تقسیم کو واضح کر دیا ہے۔
اس حملے کے اثرات صرف عسکری یا سفارتی سطح تک محدود نہیں رہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں شدید اضافہ ہوا، برینٹ کروڈ کی قیمت 13 فیصد بڑھ کر 78.50 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی، جو روس-یوکرین جنگ کے بعد سب سے بڑی چھلانگ ہے۔ اسٹاک مارکیٹس گر گئیں، سرمایہ کار محفوظ اثاثوں جیسے سونا اور سوئس فرانک کی طرف منتقل ہو گئے، اور مہنگائی و ممکنہ کساد بازاری کے خدشات پیدا ہو گئے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے خبردار کیا کہ یہ حملہ پورے خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔ چین، روس، عمان، جرمنی، برطانیہ اور آسٹریلیا نے اسرائیل کے جارحانہ اقدام کی مذمت کی اور تحمل و مذاکرات کی اپیل کی۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے واضح کیا کہ اسرائیل نے یہ کارروائی امریکہ کو اعتماد میں لیے بغیر یکطرفہ طور پر کی، جس سے واشنگٹن اور تل ابیب کے تعلقات میں تناؤ بڑھ گیا ہے۔
پاکستان نے ایران پر اسرائیل کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ کسی بھی ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے اور اس طرح کے جارحانہ اقدامات خطے میں مزید کشیدگی، عدم استحکام اور انسانی بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس صورتحال کا نوٹس لے اور مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
اگرچہ اسرائیل نے اس حملے کو اپنی دفاعی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس یکطرفہ کارروائی نے نہ صرف سفارتی تعلقات کو ثبوتار کیا ہے بلکہ پورے خطے کو بدامنی، پراکسی جنگوں اور انسانی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب دنیا دو راستوں پر کھڑی ہے۔ یا تو فوری طور پر جنگ بندی، مذاکرات کی بحالی اور عالمی دباؤ کے ذریعے خطے کو مزید بربادی سے بچایا جائے، یا پھر ایک وسیع تر جنگ کے لیے تیار رہا جائے، جس میں امریکہ کی شمولیت، تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا سنگین خطرہ شامل ہو