
فرحان خلیل
khalilfarhan87@gmail.com
پختون معاشرے میں خوشی کے اظہار کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں موسیقی، رقص، میلاد، نعت خوانی اور آتشبازی شامل ہیں۔ مگر ایک خطرناک اور افسوسناک رجحان جو پچھلے کئی برسوں میں تیزی سے عام ہوا ہے وہ ہے ہوائی فائرنگ۔ شادی کی تقریب ہو، بچے کی پیدائش، کرکٹ میچ کی جیت، یا کسی سیاسی جماعت کی کامیابی خوشی منانے کے اس وحشیانہ انداز نے درجنوں معصوم جانیں لے لی ہیں۔ پشاور جیسے گنجان آباد شہر میں یہ عمل اب صرف جرم نہیں بلکہ اجتماعی بے حسی اور المیے کی علامت بن چکا ہے۔پشاور میں جون، جولائی اور اگست کا مہینہ قیامت خیز گرمی لے کر آتا ہے۔ درجہ حرارت 42 سے 45 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اکثر علاقوں میں لوڈشیڈنگ روز کا معمول ہے۔ ایسے میں شہری گھروں کے اندر رہنے کی بجائے چھتوں، صحنوں، حویلیوں یا میدانوں میں سونا پسند کرتے ہیں تاکہ کھلی ہوا میں سکون کی نیند کی جا سکے دو نمبر خوشی کے نام پر کی جانے والی ہوائی فائرنگ کسی کو ابدی نیند سلا سکتی ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جہاں رات گئے ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں گولیاں زمین پر گر کر معصوم شہریوں کو زخمی یا ہلاک کر چکی ہیں۔پچھلے سال پشاور کے نواحی علاقے متنی میں ایک نوجوان اپنی شادی کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کر رہا تھا۔ اسی رات قریبی محلے میں ایک شخص اپنے دو بچوں کے ساتھ چھت پر سویا ہوا تھا۔ ایک گولی سیدھا اس کے سات سالہ بیٹے کے سر میں آ لگی جو موقع پر جاں بحق ہو گیا۔ مجرم کو گرفتار کیا گیا مگر چند دن بعد ضمانت پر رہا ہو کر وہ دوبارہ خوشیوں میں فائرنگ کرتا پایا گیا۔اسی طرح فقیر آباد، چمکنی، ریگی بادیزئی ، پشتخرہ، بڈھ بیر اور چارسدہ روڈ پر ایسے بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے جن میں ہوائی فائرنگ نے سوتے ہوئے افراد کی زندگی اجاڑ دی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ میڈیا میں ان کی کوریج محدود رہی اور معاشرے نے ان سانحات کو اتفاقیہ کہہ کر نظرانداز کر دیا۔پولیس ڈیپارٹمنٹ ہوائی فائرنگ کے خلاف کئی مرتبہ آپریشنز کر چکا ہے۔ گرفتاریاں، ایف آئی آرز اور جرمانے لگائے گئے مگر اصل چیلنج معاشرتی رویہ ہے۔ مجرموں کو اکثر رسم و رواج کے نام پر معاف کر دیا جاتا ہے۔ محلے دار، رشتہ دار اور جرگے والے اس عمل کو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ یہی گولی نیچے کسی گھر کے انگن میں گر کر ہنستا بستا گھرما تم میں تبدیل کر سکتی ہے ۔ایس ایس پی آپریشن پشاور نے حالیہ بیان میں کہا کہ ہوائی فائرنگ کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہے مگر عوامی تعاون کے بغیر اس کی مکمل روک تھام ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے خود بھی سوشل و پریشر گروپوں سے متاثر ہو کر کاروائی محدود کر دیں تو پھر انصاف کہاں سے آئے گا؟۔ہوائی فائرنگ کے واقعات پر عوام کی خاموشی بعض اوقات شریکِ جرم بن جاتی ہے۔ اکثر لوگ گولی چلنے کی آواز سن کر موبائل سے ویڈیو بناتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں یا خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی سوچتا تک نہیں کہ وہ گولی نیچے گر کر کس پر گرے گی۔اگر کوئی شخص ہوائی فائرنگ سے زخمی ہو جائے تو لوگ اسے بدقسمتی کہتے ہیں مگر کبھی اس کے قاتل کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔ یہ وہ اجتماعی رویہ ہے جو ہوائی فائرنگ کو معاشرے میں قابلِ قبول بناتا جا رہا ہے۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہوائی فائرنگ جیسے حساس موضوعات کو اس وقت تک اہمیت نہیں دیتا جب تک کوئی معروف شخصیت اس کا نشانہ نہ بنے۔ عام شہری، محنت کش یا غریب خاندان کے افراد اگر اس ظلم کا شکار ہوں تو وہ صرف مقامی خبر بن کر رہ جاتے ہیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ ہوائی فائرنگ کو صرف جرم کے زمرے میں نہیں بلکہ انسانی المیے کے طور پر رپورٹ کریں۔ متاثرہ خاندانوں کی کہانیاں، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں یہی وہ چیزیں ہیں جو شعور بیدار کرتی ہیں۔پختون معاشرے میں مشران اور علمائے کرام کی بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر وہ ہوائی فائرنگ کو خلافِ شریعت، غیر اخلاقی اور ناجائز قرار دیں اور اپنے خطبات میں اس کے خلاف آواز بلند کریں تو یقینا یہ عمل کم ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے اکثر علما اور مشران خود ایسی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں جہاں ہوائی فائرنگ ہو رہی ہوتی ہے ۔ اور وہ خاموش رہتے ہیں۔پاکستان اور بالخصوص خیبر پختو نخوا میں ہوائی فائرنگ کے خلاف قوانین موجود ضرور ہیں مگر ان پر عملدرآمد کمزور ہے۔ بیشتر مجرم چند دن حوالات میں گزار کر ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔ عدالتیں بھی اکثر اسے ارادتا قتل نہیں مانتیں۔ قانون میں ایسی شقیں ہونی چاہئیں جو ہوائی فائرنگ کو غیر ارادی قتل یا اقدامِ قتل کے زمرے میں لائیں اور فوری سزا دی جائے۔ قانون سازی میں ہوائی فائرنگ کو دہشت گردی کے مقدمے کے طور پر لیا جائے جب وہ جان لیوا ثابت ہو۔ عوامی شعور کی مہم میں سے اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی جائے۔ سکولوں میں آگاہی پروگرامز میں بچوں کو آغاز سے ہی یہ سکھایا جائے کہ فائرنگ تفریح نہیں بلکہ مجرمانہ عمل ہے۔اور سوشل بائیکاٹ میں ایسے افراد کو تقریبات میں بلانا بند کیا جائے جو ہوائی فائرنگ کے مرتکب ہوں۔محلے کی نگرانی میں ہر محلہ، کالونی یا گاں ایک کمیٹی بنائے جو ایسی حرکات کی اطلاع پولیس کو دے۔اگر معاشرہ خود ہی اس جرم کے خلاف متحد نہ ہوا تو کوئی قانون، کوئی پولیس اور کوئی عدالت اسے نہیں روک سکتی۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ہوائی فائرنگ صرف ایک غلطی نہیں بلکہ موت کی کھلی دعوت ہے۔ یہ خوشی نہیں ظلم ہے۔ یہ روایت نہیں قہر ہے۔ایک گولی جب فضا میں چلتی ہے تو وہ صرف آسمان کو نہیں چیرتی بلکہ کسی ماں کا دل، کسی بچے کا سر، کسی باپ کی زندگی اور پورے خاندان کا مستقبل بھی چیر دیتی ہے۔ اس گولی کی آواز چند سیکنڈ کی ہوتی ہے مگر اس کا اثر کئی نسلوں تک رہتا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور معاشرہ، فرد، استاد، صحافی، مولوی، پولیس اہلکار یا عام شہری سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم ہوائی فائرنگ جیسے قبیح عمل کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائیں گے بلکہ عملی قدم بھی اٹھائیں گے۔کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہمارے اپنے بچے چھت پر سو نہیں سکیں گے خوف کی گولی ان کے سروں پر منڈلاتی رہے گی۔