اسلام آباد
بی آئی ایس پی کے بینظیر نشوونما پروگرام سے بچوں میں اسٹنٹنگ کی شرح میں 6.4 فیصد کمی
پاکستان نے غذائی قلت کے خلاف جدوجہد میں ایک سنگِ میل عبور کیا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے عالمی صحت و ترقی کی آزادانہ مڈ ٹرم تحقیق کے مطابق، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بینظیر نشوونما پروگرام نے بچوں میں اسٹنٹنگ کی شرح کو 6.4 فیصد تک کم کیا ہے۔ یہ کامیابی دنیا کے بڑے پیمانے پر جاری کسی بھی غذائیت کے پروگرام کے لیے اب تک ریکارڈ کی جانے والی بہترین کامیابیوں میں شمار ہوتی ہے۔
تحقیق میں واضح ہوا ہے کہ پیدائش کے نتائج، بچوں کی زندگی اور ماؤں کی صحت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ان نتائج کو ایک اعلیٰ سطحی تقریب میں پیش کیا گیا جس میں بی آئی ایس پی کے ساتھ وفاقی و صوبائی محکمہ جاتِ صحت کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔
تحقیق سے ظاہر ہوا کہ نشوونما پروگرام کے مستفیدین میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اسٹنٹنگ کی شرح غیر مستفیدین کے مقابلے میں 6.4 فیصد کمی ہوئی۔ ان اضلاع میں کم وزن بچوں کی پیدائش 5.6 فیصد کم ہوئی، جبکہ کمزور یا بہت چھوٹے بچوں کی پیدائش میں 7 سے 8 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جو دنیا کے بڑے غذائیت پروگراموں میں شاذونادر ہی ممکن ہوا ہے۔
اسی طرح ایک اور اہم پیش رفت یہ رہی کہ ایسے بچوں میں چھ ماہ کی عمر میں اسٹنٹگ 20 فیصد کم رہی، جن کی مائیں حمل کے ابتدائی مہینوں میں پروگرام میں شامل ہوئیں اور دودھ پلانے کے دوران بھی پروگرام کا حصہ رہیں۔ اگر یہ نتائج 2026 کی اختتامی تحقیق میں بھی برقرار رہے تو یہ صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بچوں کی غذائی قلت کے خلاف تاریخی کامیابی قرار پائے گی۔ مزید بہتریاں ماں کے دودھ کی ابتدائی شروعات، حفاظتی ٹیکہ جات کی کوریج اور دورانِ حمل طبی معائنوں میں بھی نوٹ کی گئیں۔
چیئرپرسن بی آئی ایس پی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا: “یہ نتائج واضح ثبوت ہیں کہ جب سماجی تحفظ کو غذائیت سے جُڑے اقدامات کے ساتھ منسلک کیا جائے تو غریب اور نادار عورتوں اور بچوں کے لیے بامعنی نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ پروگرام کو مزید وسعت دینا پاکستان میں غذائی قلت کے بوجھ کو کم کرنے اور انسانی وسائل کو بہتر بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ صحت مند مائیں ہی ایک صحت مند قوم کی بنیاد ہیں۔ پاکستان کی یہ کامیابی دنیا کو دکھاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر غذائی قلت کے مسائل کا حل نہ صرف ممکن ہے بلکہ مؤثر بھی ہے۔”
آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے کہا: “یہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ ابتدائی مرحلے میں غذائیت میں سرمایہ کاری آنے والی نسلوں کے لیے ثمر آور ہوتی ہے۔ نشوونما پروگرام نے بچوں میں قد کی کمی، کم وزن پیدائش اور ماں و بچے کی صحت بہتر بنانے میں نمایاں کامیابیاں ظاہر کی ہیں۔ یہ شواہد دنیا کے بہترین نتائج میں شمار ہوتے ہیں ۔”
2020 میں بی آئی ایس پی کے تحت شروع ہونے والا بینظیر نشوونما پروگرام اب تک ملک کے 156 اضلاع میں 35 لاکھ سے زائد خواتین اور بچوں تک پہنچ چکا ہے، اس پروگرام کے 540 سے زائد مراکز موجود ہیں۔ یہ پروگرام سائنسی شواہد پر مبنی ہے، جس میں 2014 سے 2019 تک سخت جانچ کے عمل سے گزرنے والے تحقیقی آزمائشی منصوبے بھی شامل ہیں۔ پروگرام کا جامع پیکیج دورانِ حمل اور پیدائش کے بعد طبی نگہداشت، حفاظتی ٹیکہ جات، آگاہی و رویہ جاتی تبدیلی، شدید غذائی قلت کا علاج، مشروط نقد امداد اور مقامی سطح پر تیار کی جانے والی غذائی اشیاء پر مشتمل ہے۔ یہ پروگرام اقوام متحدہ کے اداروں، جیسے ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP)، عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور یونیسف (UNICEF) کے تعاون سے نافذ کیا جا رہا ہے۔
ان کامیابیوں کے باوجود پاکستان کو اب بھی شدید غذائی بحران کا سامنا ہے: پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے قد کی کمی کا شکار ہیں، 28 فیصد کم وزن ہیں اور نصف سے زیادہ بچے خون کی کمی یا دیگر غذائی کمیوں سے متاثر ہیں۔ یہ مسائل بچوں کی نشوونما، سیکھنے کی صلاحیت اور آئندہ پیداواری زندگی پر دیرپا اثرات ڈالتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے سماجی تحفظ کے پروگرام کے طور پر بی آئی ایس پی ان مسائل کے حل میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ونشونما پروگرام کی مڈ ٹرم تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ پروگرام نہ صرف پاکستان میں غذائی قلت کے خلاف قومی سطح پر ٹھوس پیش رفت لا سکتا ہے بلکہ دنیا بھر میں بچوں کی صحت اور غذائیت بہتر بنانے کے لیے قیمتی شواہد بھی فراہم کرتا ہے۔
